ایف آئی آر کیوں نہیں ؟

   

فضائے شہر جو مسموم ہوگئی اتنی
کوئی بتائے لوگوں کا یہ احتجاج کیسا ہے
ایف آئی آر کیوں نہیں ؟
دہلی کے فسادات اور تشدد نے سارے ہندوستان کو متفکر کردیا ہے ۔ سارے ملک میں یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں ہمارے ملک میں ایسے حالات پیدا کردئے گئے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں اور جائیداد و املاک کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے ۔ شہر کا امن و امان ختم کردیا گیا ہے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر کرکے رکھ دی گئی ہے ۔ سارے تشدد اور فسادات میں پولیس کے رول پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ پولیس کا رول جہاں جانبدارانہ رہا ہے وہیں پولیس نے فسادیوں کے خلاف کارروائی تک کرنے تین چار دن کا وقت خراب کردیا ۔ حالات کو بگڑتا دیکھ کر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ایک ڈپٹی کمشنر پولیس کی موجودگی میں بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے ہجوم کو بھڑکانے سے تک گریز نہیں کیا اور پولیس عہدیدار مسکراتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے چلے گئے ۔ عوام میں پولیس کا رویہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ عوام ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے رہے کہ پولیس نے آخر کیوں خاموشی اختیار کررکھی تھی اور کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ حالات کو بگاڑنے اور خراب کرنے والے بیان پر پولیس نے فوری کارروائی کیوں نہیں کی ؟ کپل مشرا وہاں موجود تھے ۔ پولیس فورس موجود تھی فوری انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ؟ ۔ جب یہ معاملہ عدالت پہونچا اور عدالت نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کیلئے کہا تو جو جواب دیا گیا وہ بھی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ کوئی کارروائی کرنا یا گرفتار کرنا تو دور کی بات ہے عدالت سے یہ کہا گیا کہ فی الحال ایف آئی آر درج کرنے کیلئے وقت مناسب نہیں ہے ۔ یہ جواب پولیس کی بے بسی اور حکومت کی لا پرواہی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خود مرکزی حکومت ‘ جس کے کنٹرول میں دہلی کی پولیس کام کرتی ہے ‘ نہیں چاہتی کہ حالات کو معمول پر لایا جائے یا امن کو متاثر کرنے اور حالات کو بگاڑنے والوں کے خلاف واقعی کوئی کارروائی کی جائے ۔ عدالت میں ظاہر کئے گئے موقف سے تو یہی اشارے ملتے ہیں کہ مرکزی حکومت خود بھی کوئی کارروائی کرنا نہیںچاہتی ۔
کوئی لیڈر سر عام عوام کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے کی بات کرتا ہے اور پولیس عہدیدار کی موجودگی میں ایسی کوشش ہوتی ہے اس کے باوجود پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور عدالت یہ ہدایت دیتی ہے کہ مقدمہ درج کیا جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ فی الحال صرف مقدمہ درج کرنے کیلئے بھی وقت مناسب نہیں ہے تو اس سے حکومت کے عزائم کا پتہ چلنا فطری بات ہے ۔ سارے شہر کے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیا گیا ۔ قتل و خون اور غارت گری کا بازار گرم کردیا گیا ۔ دو درجن سے زائد لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ۔ لاکھوں کروڑوں روپئے کی املاک کو تباہ کردیا گیا ۔ سینکڑوں افراد زخمی ہوکر دواخانوں میں زیر علاج ہیں۔ وہاں بھی کچھ زندگی کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو کچھ معذور ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود محض مقدمہ درج کرنے میں بھی اگر مصلحت سے کام لیا جاتا ہے تو اس سے افسوسناک پہلو کچھ نہیں ہوسکتا ۔ ہائیکورٹ میں درخواست گذاروں کے وکیل نے یہ تک کہا کہ وہ فوری طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کی گرفتاری پر زور نہیں دے رہے ہیں صرف مقدمہ درج کرنے کی بات کر رہے ہیں تب بھی اگر صرف ایف آئی آر درج کرنے میں معذوری ظاہر کی جاتی ہے تو اس سے حکومت کی بے بسی یا پھر اس کے عزائم کے تعلق سے کوئی نتیجہ اخذ کرلینا زیادہ مشکل نہیں رہ جاتا ہے ۔ یہ حکومت کی بے بسی سے زیادہ اس کے عزائم کی بات ہے۔
حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ فسادیوں کو گرفتار کیا جائے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔ مقدمات بھی صرف ضابطہ کی کارروائی کیلئے نہ ہوں بلکہ خاطیوںکو سزائیں دلانے کی کوشش کی جائے ۔ عوام کو فساد اور تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف زیادہ سخت کارروائی کرنے کی ضرو رت ہے ۔ محض اس لئے کہ وہ سیاسی لیڈر ہیں اور وہ بھی مرکز میں برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھتے ہیں انہیں معاف نہیں کیا جانا چاہئے ۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران جہاں کہیں کسی نے بھی اشتعال انگیز بیانات دئے ہوں ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں کسی جانبداری سے کام لینا در اصل فساد متاثرین سے صریح ناانصافی اور انصاف کے تقاضوں کی عدم تکمیل کے مترادف ہوگا ۔ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل سے قطعی گریز نہیں کرنا چاہئے ۔