ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ کافیصلہ قطعی نہیں ہے۔ ظفر یاب جیلانی

,

   

لکھنو۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ایودھیا معاملہ میں فیصلہ سنائے جانے کے بعد بھی سینئر سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفر یاب جیلانی فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پانچ ججوں کی بنچ کا فیصلہ قطعی نہیں ہے۔

ایک انٹرویو کے دوران جیلانی نے ائی اے این ایس سے کہاکہ ”سپریم کورٹ نے پہلے ہی مذکورہ پانچ ججوں کے ایک درجن سے زائد فیصلوں کو نظر انداز کردیاہے“۔

انہوں نے کہاکہ ”تیرہ ججوں کی بنچ بھی تشکیل دی جاچکی ہے۔ مذکورہ سپریم کورٹ نے کبھی نہیں کیاکہ پانچ ججوں کی بنچ کا یہ فیصلہ قطعی ہے اور قابل تسلیم ہے۔

قانون کی تاریخ سے جو واقف نہیں ہیں وہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے پر ضرور حیران ہوں گے“۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ”میرا تحریری بیا ن یہ ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے قطعی فیصلے کو قبول کریں گے۔ جو کچھ بھی نتیجہ آیاہے وہ قطعی فیصلہ نہیں ہے۔

ارٹیکل137اسبات کی اجازت دیتا ہے کہ جو کوئی بھی فیصلے سے مطمئن نہیں ہے وہ نظرثانی کی درخواست دائرکرسکتا ہے“۔

جیلانی نے مذکورہ سنی وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ایودھیا کے مسلمانوں پر معاملے میں د و ذمہ داریوں کو حوالہ دیتے ہولے کہاکہ ”دوسروں کو اس معاملے میں کوئی رائے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

مسجد کے لئے متبادل اراضی کی فراہمی شریعت کے خلاف ہے۔ شریعت اسلامی اس کی اجازت نہیں دیتی۔وقف ایکٹ بھی ایسا ہی ہے۔

سپریم کورٹ مسجد کی جگہ تبدیل نہیں کرسکتا ہے۔ ارٹیکل142کے مطابق وہ کسی ادارے کے خلاف نہیں جاسکتا ہے“۔

سنی وقف بورڈ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے انکار کا حوالہ دیتے ہوئے جیلانی نے کہاکہ ”نظرثانی کی درخواست آیا وہ داخل کررہے ہیں یا نہیں۔انکے معاملے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

مسلم سماج نے اس فیصلے کو منظور ی نہیں دی ہے۔

اگر سنی وقف بورڈ نظرثانی کی درخواست کے خلاف جاتا ہے تو جائے۔ ایک فریقین جو چاہے وہ کرسکتا ہے“۔

یہاں پر اس یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر مسلمان 9نومبر کے روز ائے فیصلے سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے سوشیل میڈیاپر فیصلے کی حمایت میں اپنی رائے ظاہر کی ہے۔

اس پر جیلانی نے کہاکہ ”اس ملک میں 200ملین مسلمان ہیں۔ اگر دولاکھ مطمئن ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا“۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کچھ ممبرس کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے سے گریز کی رائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جیلانی نے کہاکہ ہر جمہوری نظام میں کچھ اختلا ف رائے ضرورہوتی ہے۔

کچھ تعلیمی یافتہ مسلمانوں کا یہ کہناہے کہ اگر معاملہ جلدہوجاتا تواتنی تاخیر نہیں ہوتی‘ جس پر جیلانی نے کہاکہ ”اس طرح کے لوگ محض دیوان خانوں میں بیٹھ کر صرف مشورہ دیتے ہیں۔

ہم نے اپنا کام پوری ایمانداری کے ساتھ کیاہے۔ ہم 1986سے یہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اویسی (اسد الدین اویسی) کے والد نے اس لڑائی ہماری حمایت کی ہے“۔

انہو ں نے کہاکہ ”ایودھیا پرنظرثانی کی ایک درخواست 9ڈسمبر سے قبل دائر کی جائے گی۔

ہم ہندوستانی ائین کے قانونی موقع کا انتخاب کریں گے۔ آخر ی سانس تک ہم اس کیس میں اپنی جدوجہدکو جاری رکھیں گے“