ایڈورپا حکومت سے ناراضگی

   

کاروانوں میں حوصلہ ہی نہ تھا
ہوگئی مفت رہگذر بدنام
ایڈورپا حکومت سے ناراضگی
کرناٹک میں ایڈورپا کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہونے لگی ہیں۔ جس وقت سے کابینہ میں رد و بدل کی اطلاعات شروع ہوئی تھیں اسی وقت سے بی جے پی میں داخلی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا تھا اور کل کابینہ میں سات نئے وزراء کی شمولیت نے ایک طرح سے ایڈورپا کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔ خود بی جے پی کے تقریبا ایک درجن ارکان اسمبلی نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے جو الزامات عائد کئے ہیں وہ سنگین نوعیت کے ہیں۔ ناراض ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے سی ڈی تیار کرتے ہوئے چیف منسٹر کو بلیک میل کیا تھا انہیں کابینہ میں شامل کیا گیا ہے اور کچھ دوسروں کو بھاری رقومات حاصل کرتے ہوئے وزارتی سونپی گئی ہیں۔ یہ الزامات ایسے ہیں جو سنگین نوعیت کے ہیں اور ان کی جامع تحقیقات بھی کروائی جانی چاہئیں۔ یہ پتہ چلایا جانا چاہئے کہ جس سی ڈی کا ذکر ہور ہا ہے اس میں کیا کچھ ہے جس کی وجہ سے ایڈورپا کو بلیک میل کیا گیا ہے ۔ یہ الزام بھی جانچ کے قابل ہے کہ ایڈورپا نے بھاری رقومات حاصل کرتے ہوئے وزارتیں تقسیم کی ہیں۔ یہ الزامات کرپشن کی ایک بدترین مثال ہے جو چیف منسٹر کے خلاف اپوزیشن نہیں بلکہ خود برسر اقتدار جماعت کے ارکان اسمبلی کی جانب سے عائد کئے جا رہے ہیں۔ ان الزامات کو اس بات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے جانچنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں بھی ایڈورپا کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد کئے جاچکے ہیں۔ ماضی میں ایڈورپا کو کرپشن کے الزامات کی وجہ سے چیف منسٹر کی کرسی سے محروم ہونا پڑا تھا اور انہوں نے خود بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا تھا اور علیحدہ جماعت بھی قائم کرلی تھی ۔ اس وقت بھی ایڈورپا پر کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ ان الزامات کو ایڈورپا نے مسترد کردیا تھا ۔ تاہم اب جو الزامات عائد کئے جارہے ہیں وہ اپوزیشن کی جانب سے نہیں ہیں بلکہ خود بی جے پی کے ارکان اسمبلی کی جانب سے عائد کئے جا رہے ہیں اور یہ سنگین معاملات ہیں جن کی تحقیقات کی جانی چاہئیں ۔ ریاست کے عوام کو ان الزامات کی حقیقت سے واقف کروانے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک حکومت کیلئے مشکلات کی بات ہے تو ناراض سرگرمیاں بتدریج شدت اختیار کرنے کے بھی اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ایڈورپا پر الزام ہے کہ انہوں نے صرف اپنے حاشیہ برداروں اور ہمنواوں کو وزارت میں شامل کرنے کو ترجیح دی ہے اور بلیک کرنے والوں کو فوقیت دی گئی ہے ۔ پارٹی کے وفاداروں ‘ علاقائی اور ذات پات کے توازن کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور نہ ہی مناسب انداز میں کابینہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے ۔ ایڈورپا حالانکہ ان تنقیدوں کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں مرکزی قیادت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے ناراض اور باغی قائدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سرعام اس طرح کی بیان بازی کرتے ہوئے پارٹی کے امیج کو متاثر نہ کریں بلکہ ان کے خلاف شکایات کو مرکزی قیادت سے رجوع کیا جائے ۔ قیادت اس کی جانچ کرے گی ۔ اس طرح ایڈورپا نے مخالفین اور ناراض قائدین کو حاشیہ پر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کو مرکزی قیادت کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔ اس سب کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ ناراض قائدین بھی اس رویہ کو اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں میں شدت پیدا کرسکتے ہیں۔ ناراض سرگرمیوں میں اگر شدت پیدا ہوتی ہے تو پھر اس سے ایڈورپا حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ جب اختلافات شدت اختیار کر جائیں تو مرکزی قیادت کو کوئی مصالحتی راستہ اختیار کرنا ضروری ہوجائیگا ۔
جس طرح سے کانگریس ۔ جے ڈی ایس حکومت کو زوال کا شکار کرتے ہوئے ایڈورپا وزارت تشکیل دی گئی ہے اس کے بعد سے ہی حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں تاہم ان پر کنٹرول کیا جاتا رہا ۔ اب جبکہ وزارت میں توسیع ہوئی ہے تو وزارت کے خواہشمند قائدین میں ناراضگی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ شدت کا اندازہ چیف منسٹر کے خلاف عائد کئے جانے والے الزامات سے کیا جاسکتا ہے ۔ عوامی تائید اور ووٹ کے بغیر قائم ہونے والی حکومت کیلئے اس طرح کی مشکلات کا پیش آنا فطری بات ہے اور اس کے نتیجہ میں حکومت کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے اور عوامی توقعات کی تکمیل حکومت کیلئے ممکن نہیں ہوگی ۔ گذرتے وقت کے ساتھ حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوسکتا ہے ۔