ایکناتھ شنڈے ‘ سفر کتنا آسان کتنا مشکل

   

پھول کھلتا ہے بکھرنے کا تصور لے کر
جس کو ہنستا ہوا پائوگے پریشاں ہوگا
مہاراشٹرا میں ایکناتھ شنڈے کی حکومت نے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے ۔ بی جے پی کی حصہ داری سے بنی حکومت کیلئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا مشکل نہیں تھا ۔ کل ہی اسپیکر اسمبلی کی حیثیت سے بی جے پی رکن اسمبلی کی کامیابی نے واضح کردیا تھا کہ حکومت کیلئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا مشکل نہیں تھا ۔ ایکناتھ شنڈے نے شیوسینا سے راتوں رات بغاوت کرتے ہوئے درجنوں ارکان اسمبلی کو اپنے کیمپ میں شامل کرلیا ۔ مہاراشٹرا سے گجرات میں سورت گئے ۔ سورت سے آسام میں گوہاٹی کا سفر کیا ۔ گوہاٹی سے شنڈے مہاراشٹرا تو پہونچے لیکن ارکان اسمبلی کو گوا بھیجا گیا ۔ مہاراشٹرا میں شنڈے کی بحیثیت چیف منسٹر حلف برداری کے بعد ہی یہ ارکان اسمبلی ممبئی واپس آئے ہیں۔ اب جبکہ شنڈے حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے تو ارکان اسمبلی کی نقل و حرکت پر بھی پابندیاں ختم ہوگئی ہیں ۔ حکومت کیلئے فی الحال کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ارکان اسمبلی بھی حکومت کے ساتھ ہی ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ شنڈے کیلئے مہاراشٹرا کی حکومت چلانا کتنا مشکل اور کتنا آسان رہے گا ۔ شنڈے کیلئے تجربہ کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ وہ وزیر کی حیثیت سے خدمات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے نائب کی حیثیت سے سابق چیف منسٹر دیویندر فڈنویس بھی موجود ہیں لیکن بحیثیت چیف منسٹر ساری ریاست کے کام کاج کی نگرانی کرنا اور عوام کی مشکلات کو دور کرتے ہوئے ریاست کی ترقی اور معیشت کو آگے بڑھانا آسان کام نہیں ہوگا ۔ حکومت کیلئے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل عوامی نبض کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس معاملہ میں شنڈے کو بی جے پی پر انحصار کرنا پڑیگا ۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل شنڈے بی جے پی کے مشورہ کے تابع رہیں گے ۔ بی جے پی کوئی بھی فیصلہ انہیں مکمل آزادی سے کرنے کا موقع نہیں دے گی ۔ جس طرح سے بی جے پی نے مہاراشٹرا میں شیوسینا کو توڑا ہے اس سے پارٹی کے عزائم کو سمجھنا مشکل نہیں رہ جاتا ہے ۔ بی جے پی اسی نوعیت کے فیصلوں کی اجازت دے گی جو اس کیلئے بہتر ہونگے اور سیاسی اعتبار سے پارٹی کیلئے ہی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
بی جے پی مہاراشٹرا میںتنہا اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ جب شیوسینا کے ساتھ اتحاد تھا اس وقت شیوسینا کو اقتدار میں حصہ داری دینے کو پارٹی تیار نہیں تھی ۔ بعد میں جب شیوسینا نے این سی پی و کانگریس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے حکومت تشکیل دی تو بی جے پی کیلئے صورتحال مشکل ہوگئی تھی ۔ ایسے میں بی جے پی نے ماحول بناتے ہوئے شیوسینا میں تقسیم کو یقینی بنایا اور ادھو ٹھاکرے کو اقتدارسے بیدخل کردیا اس سے پارٹی کے عزائم کا پتہ چلتا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے وزارت اعلی کے عہدہ کو چھور دینا بھی اس کی حکمت عملی کا حصہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کیلئے بی جے پی ذمہ دار نہیں ہوگی ۔ بی جے پی کے مہاراشٹرا میں تنہا حکومت تشکیل دینے کے جو عزائم ہیں ان سے ایکناتھ شنڈے کو زیادہ مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی جب ارکان اسمبلی کو ادھو ٹھاکرے کی قیادت کے خلاف بغاوت کیلئے آمادہ کرسکتی ہے تو اس کیلئے انہیں شنڈے کے خلاف اکسانا بھی مشکل نہیں رہے گا ۔ جب بھی بی جے پی حالات کو سازگار محسوس کرے گی ایکناتھ شنڈے کو بھی اقتدارسے بیدخل کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کو اپنی صفوں میں شامل کرسکتی ہے اور تنہا اقتدار پر فائز ہوسکتی ہے ۔ اس جانب ایکناتھ شنڈے کو خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہوگی اور جب وہ اپنی حکومت اور کرسی بچانے کی فکر میں مصروف رہیں گے ان کیلئے حکمرانی پر توجہ دینا اور ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا آسان نہیں رہ جائیگا ۔ بی جے پی اس کا فائدہ اٹھاسکتی ہے ۔
جہاں تک مہاراشٹرا کی صورتحال ہے ادھو ٹھاکرے نے بحیثیت چیف منسٹر کورونا کی دو لہروں کے دوران حالات کو بہتر بنانے کیلئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے عوام کو ممکنہ حد تک راحت پہونچانے کے اقدامات کئے تھے ۔ حالانکہ اب کورونا کا خطرہ نہیں ہے لیکن حالات پوری طرح سے بحال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ ان حالات کو بحال کرنے کیلئے شنڈے کو اختراعی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مشکل صورتحال سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں اور بی جے پی کی سیاسی چالوں کو جھیلتے ہوئے کہاں تک کامیاب ہوسکتے ہیں اور کب تک اپنے عہدہ کو برقرار رکھ پاتے ہیں۔