ایک خط : موہن بھاگوت کے نام

   

اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست سے متعلق جو بھی الزام لگائے گئے ان الزامات کی ذمہ داری کو بہت حد تک آر ایس ایس کو بھی قبول کرنا چاہئے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بی جے پی اچھی کارکردگی دکھاتی ہے تو اس کا سہرا آر ایس ایس کے سر باندھ دیا جاتا ہے۔
محترم جناب بھاگوت صاحب !
مجھے یقین ہے کہ حالیہ اسمبلی کے انتخابات کے نتائج پر آپ کی بھی نظر رہی ہوگی ۔ بالخصوص ہندی بولے جانے والے اہم خطوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نامی جس تنظیم کے آپ صدر ہیں ، اس فاش شکست کی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتی کیونکہ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بی جے پی الیکشنوں میں اچھی کارکردگی پیش کرتی ہے تو اس کامیابی کا سہرا آپ کی تنظیم کو چلا جاتا ہے ۔ اس طرح کے دعوے آپ نے اپنے بیانوں میں بارہا کیا ہے کہ بی جے پی کو الیکشنوں میں جو بھی کامیابی ملتی ہے اس کے پیچھے آر ایس ایس سے جڑے رضاکاروں کی بے لوث خدمت اور محنت شامل ہوتی ہے۔
حالیہ اسمبلی کے انتحابات میں ذمہ داری سے متعلق آر ایس ایس کا جو بھی حصہ تھا ، آنے والے عام انتحابات میں اس سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گا چونکہ آپ نے رام مادھو کو کام کرنے کیلئے بھارتی جنتا پارٹی کا مکمل جنرل سکریٹری بنایا ہے اور اسی طرح اپنی تنظیمی ممبران کو بھی یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آر ایس ایس ، ہمدرد کی حیثیت سے کھل کر اور سیاسی تجزیہ کی حیثیت سے مختلف نیوز چینلوں بشمول دیش رتن ، راگھوا سوتھی اور سندیپ مہا پاترا کے نام قابل دکر ہیں ، ظاہر ہوئی ہے۔
آپ خود اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آر ایس ایس یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ ایک غیر سیاسی ثقافتی تنظیم ہے اور نہ ہی وہ بی جے پی سے اپنے آپ کو دور رکھ سکتی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب بی جے پی کی مقبولیت میں کافی گراوٹ آرہی ہو۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بی جے پی الیکشن میں کامیاب ہوتی ہے تو آپ کی تنظیم کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ہماری تنظیمی کوششوں کی مرہونِ منت ہے۔

سوال چاہے کیا اور کیسے میں ہو۔ جس طرح ہندی بولی جانے والی علاقوں میں بی جے پی کو در کنار کیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں بھی اس کا وہی حشر ہو۔ اس ذمہ داری سے آر ایس ایس راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ راجستھان مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے حالیہ انتخاب سے متعلق تجزیہ کرتے وقت ایک اہم نکتہ کو سمجھنے میں تجزیہ نگاروں سے بڑی بھول ہوگئی ، وہ یہ کہ مذکورہ علاقوں میں بی جے پی قریب پہنچ کر بھی کانگریس سے شکست کھا گئی ، جہاں وہ پندرہ برسوں سے حکومت میں تھی ۔ گجرات کو چھوڑ کر ان ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت فلاح و بہبودی کا نتیجہ تھی ، نہ کہ ہندو توا کا مضبوط ایجنڈہ ۔
اس سے آپ کو واضح اشارہ جانا چاہئے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں جبکہ آپ کی تنظیم کا سیاسی برانڈ کچھ اور ہی کرنے میں جٹا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کبھی بھی سماجی اور معاشی برابری کو لے کر فعال نہیں رہی ہے بلکہ یہ تو پچھلے پانچ برسوں سے کچھ زیادہ ہی ان تمام انفرادی اور سماجی جماعتوں کو جو آپ کی تنظیم کے خیالات و نظریات سے اتفاق نہیں کرتے ، اپنی تخریبی سیاست کے بل بوتے انہیں زیر کرنے میں برسر پیکار رہی ہے جبکہ آپ نے اپنی متعدد تقریروں کے ذریعہ وگیان بھون اور اسی طرح ہندوستان کے نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو کے ساتھ ایک پروگرام جو بہترین پارلیمنٹرین ایوارڈ کے سلسلہ میں منعقد ہوا تھا کہ موقع پر کہا تھا کہ ’’سیاست مخالفت کا ہونا اچھی بات ہے ، برخلاف اس کے کہ دشمن ہونے اور دشمنی کی بات کی جائے‘‘۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ وہ تمام لوگ جو آپ کی سیاست سے اتفاق نہیں رکھتے ، چاہے وہ سیاسی لوگ ہوں یا پھر جامعات کے پروفیسر حضرات ہوں، ان کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے ، انہیں یا تو رہنے کا حق نہیں ہے یا ادب سکھانے کی ضرورت ہے یا پھر وہ اکثریت پر مبنی حکومت کے مرضی کے تابع ہوجائیں۔ اسی طرح وزیراعظم نے کانگریس سے آزاد ہندوستان کا نعرہ دیا اور قومی سلامتی صلاح کار اجیت دویل اپنے حالیہ بیان میں یہ کہتے نظر آئے کہ کانگریس کو ہٹانے کیلئے اس سے بھی سحت نعرے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ نے صرف انہیں یاد رکھا جنہوں نے حکومت کی اور جو بے پناہ قوت کے مالک تھے ، نہ کہ ان کو جو ہمیشہ سچ کیلئے کھڑے رہے۔
چانکیہ نیتی کے مطالعے سے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار ہوتا ہے جس کا آپ اکثر و بیشتر حوالہ دیتے رہتے ہیں اور نیز اس کی ایک تصویر بی جے پی کے صدرامیت شاہ کے مختلف انٹرویو کے درمیان جو نیوز چیانلوں کو دیئے گئے تھے ، ان کے پیچھے معلق دیکھا گیا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ ان باتوں کا کیا مطلب ہوسکتا ہے ؟ موجودہ حکومت کے پیچھے پورے پانچ سالوں میں جس سے آپ اور آپ کی تنظیم وابستہ رہی ہے ۔ ایک طرح کا خوف و ہراس کا ماحول رہا ہے اور بالخصوص ان کو جان بوجھ کر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ، جو آپ سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

ذات پات ، جنس اور مذہبی گروپوں کے درمیان سماجی اختلافات کو ہوا دینے کیلئے غیر معمولی تشددکا سہارا بھی لیا گیا ہے ۔ ہندوستان میں سماجی پروتاہی پر مبنی ایک مضبوط معاشرہ کے علاوہ ایک ایسا بھی معاشرہ ہے جو غیر مساوی سماجی ، سیاسی اورمعاشی محور پر قائم ہے۔
وہ لوگ جو سیاسی طورپر مضبوط ہیں، جیسے پسماندہ ذاتیں لیکن سماجی طور پر پسماندہ ہیں اور اسی طرح جو سماجی طور پر ترقی یافتہ اور مہذب ہیں ، جیسے برہمن لیکن سیاسی طور پر کسی حد تک کمزور ہیں اور بعض وہ لوگ ہیں جو معاشی طور پر مضبوط ہیں جیسے ان دونوں کے درمیان کیک ذاتیں لیکن سماجی طور پر زوال پذیر ہیں ۔ اس طرح کی اونچ نیچ پن اور غیر مساوی پن تشویش ، خطرہ کا احساس اور عدم تحفظ کو جنم دیتی ہے ۔ موجودہ حکومت کے زیراثر ہجومی تشدد ، سماجی اور عوامی زندگی کو جرم کی طرف راغب کرنے کے لئے ان کیڑے مکوڑوں کا سیاسی استعمال خوب کیا گیا ہے ۔ ایسے معاشرے جن میں نا برابری اور غیر مساوات راہ پا چکی ہوں ، کے مضبوط سماجی تعصبات میں تبدیلی لانے اور جائز مطالبات کے درمیان توازن قائم کرنے کیلئے سیاسی میکانزم کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ معاشرہ کو ہر طرح کے تشدد کی آگ میں ڈالا جائے اور محض اختلافات کو مزید ہوا دی جائے ۔ آر ایس ا یس کے لئے ممکنہ وجہ کیا ہوسکتی ہے ، اگر اس کی رضامندی اور ہردلعزیزی اس طرح کے تشددکے خاتمہ کیلئے نہ ہوکر بی جے پی کے انتخابی زوال میں معاون ثابت ہوجائے ؟ اسمیں سازشی پہلو کا بول بالا ہے کہ شیوراج چوہان جنہوں نے اپنے آپ کو فلاح و بہبود پر مبنی عوامی نمائندہ کی حیثیت سے پیش کیا تھا ، جیسے وزیر اعلیٰ مسترد کردیئے گئے اور جبکہ آپ کی تنظیم یوگی ادتیہ ناتھ جیسے کچھ لوگوں کو ترجیح دیتی ہے جو نہ صرف پوری طرح حکومت چلانے میں ناکام ثابت ہوئے بلکہ عوام سے جڑے معاملات میں ضرورت سے زیادہ غیر معقولیت کا اظہار کیا، جس کا اترپردیش میں ہجومی حملہ میں ایک پولیس افسر کا قتل منہ بولتا ثبوت ہے ۔ بہ الفاظ دیگر جو جتنا تشدد پسند ہوگا وہی ہندو سمراٹ کی حیثیت سے روپ دھارے گا۔
آپ عوام کی زندگی کا طو یل تجربہ رکھتے ہیں ، اس بنیاد پرمجھے یقین ہے کہ آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ بے روک ٹوک تشدد اور ہجومی جان لیوا حملہ کے واقعات جن میں کافی مقدار میں عام لوگوں کی شمولیت نے معاشرہ کو حد درجہ خوگر بنادیا ہے جو کسی بھی تنظیمی گرفت سے بالاتر ہوگیا ہے ۔ اس طرح کے واقعات پر آپ کی خاموشی کیا بیان کرتی ہے ؟
ہندوؤں کے تئیں آپ کی محبت اور مخفی تشویش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ گوری لنکیش سے لے کر اترپردیش میں پولیس افسر کے قتل تک سارے کے سارے ہندو تھے ، موجودہ حکومت میں آپ کے اثر و رسوخ کے منتظر ہیں۔ ان ہجومی پر تشدد جان لیوا حملوں میں سے اکثر حملہ گائے حفاظتی دستہ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف شروع کیا گیا تھا اوراسی طرح یکے بعد دیگر واقعات مثلاً کشمیر میں ناقابل بیان تشدد میں ایک آٹھ سالہ بکروال لڑکی کی عصمت دری گجرات میں دلتوں کے خلاف عام تشدد اور نیز دوسرے علاقوں میں تشدد کا واضح اثر راجستھان میں بی جے پی کی محفوظ شدہ سیٹوں پر شکست کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
آپ اور آپ کی تنظیم جو بنیادی طور پر ثقافتی مسائل پر کام کرتی ہے ، ان عام پر تشدد واقعات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی آواز بلند کیوں نہیں کرتی ہے؟ گوری لنکیش قتل کے واقعہ کے بعد ایک انٹرویو میں آپ کو یہ کہتے سنا گیا کہ آر ایس ایس تشدد میں یقین نہیں رکھتا لیکن پچھلے دو سالوں میں ہونے والے واقعات پر آپ کی خاموشی بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ آپ اسے ثقافت کا آئینہ لگاکر ثقافتی معیار میں گراوٹ اورناکامی سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح رام مادھو نے اپنے ایک انٹرویو میں بڑی ہی لاپرواہی سے کشمیر میں ایک فوجی افسر کے ذریعہ ایک نوجوان مسلم کو جیپ کے ساتھ باندھ کر کھینچے جانے والے واقعہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہا کہ محبت اورجنگ میں سب کچھ معاف ہوتا ہے کیا تشدد کی اس عوامی جواز سے اتفاق کرتے ہیں؟ یا پھر اس سے چشم پوشی کرتے ہیں ؟
کیا آپ کی خاموشی اور پرتشدد واقعات سے بی جے پی کی مقبولیت میں کمی نہیں آرہی ہے ؟ اقتصادی محاذ پر آپ کی تنظیم مغربی سامان کے بالمقابل سودیشی سامان کے استعمال پر زور دینے کیلئے پھر سے نعرہ دینے کیلئے پھر سے نعرہ دینے میں مشہور ہوگئی ہے جبکہ آج ہم ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں یہ پاتے ہیں کہ زرعی بحران نے سینکڑوں کسانوں کو خود کشی کرنے پر مجبور کردیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ آپ کی تنظیم اپنی سودیشی ایجنڈہ کے احیاء میں مشغول ہے اور دیہی اقتصادی کو ترقی دینے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قومیت اور ثقافت کا کوئی بھی نعرہ ملک کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا جو اقتصادی طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو۔
جہاں تک میں جانتا ہوں آر ایس ایس اڈیشہ میں کو ریائی اسٹیل میجر پاسکو کے خلاف آدی واسیوں اور کسانوں کی جدوجہد میں وسطی ہندوستان کے حصوں میں زمین کی حصولیابی میں کوئی سرگرم رول ادا نہیں کر رہی ہے اور اس کے برعکس اترپردیش میں اینٹی رومیو اسکواڈس منظم کرنے اور جوانوں کو والینٹائین ڈے منانے سے روکنے میں اپنی قوت صرف کر رہی ہے۔ اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ تمام مسئلہ جڑ مغرب کی مرہونِ منت ہے تو وہ چیزیں جو معیشت کے دائرہ کار میں آتی ہیں تو پھر اس کا مطلب ملک و قوم کے اقتدار اعلیٰ سے سمجھوتا کرنے کے مترادف ہوگا۔
ان دنوں ہم نے دفاعی شعبہ میں پچاس فیصد سے زیادہ کی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کی اجازت دے رکھی ہے تو پھر اس سے بھی قوم پرستی کو خطرہ لاحق ہونا چاہئے تھا اور جبکہ کسانوں کی متعدد تنظیمیں آپ کی تنظیم سے جڑ کر کسانوں کے حالیہ احتجاجات کو تحریک کی شکل دینے میں سرگرم رول ادا کر رہی ہے اور آپ کی طرف سے قوم کو درپیش دیسی زرعی بحران ختم کرنے والا کوئی بھی وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ شائد یہی ایک موقع تھا آر ایس ایس کو مختلف نظریات پر مبنی تحریکوں سے وابستہ تعلیم یافتہ طبقوں اور سماجی کارکنوں سے اپنے آپ کو جوڑے رہنے اور سیکھنے کی ضرورت تھی۔ تاہم اس طرح کے کسی بھی شمولیاتی عمل کے خلاف یونیورسٹیوں کی خود مختاری ، انفرادی تعلیمات بشمول عالمی شہرت یافتہ ذہنیت کے مالک امریتا سین جیسے لوگوں پر پھر اگر کسی طرح کا کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس سے چشم پوشی برداشت نہیں کی جائے گی۔

اب بھی اگر آپ اور آپ کی تنظیم نے اپنے آپ کو جوڑا نہیں اور نہ ہی اس سے کچھ سبق لیا تو پھر ہندوستان کیسے عالمی سائنس ، ٹکنالوجی اور فلسفہ کی دنیا میں قیادت کرے گا ؟ جبکہ آپ کی تنظیم ذہنی سرمایہ اور ذہنی وسائل کو تحریکی شکل دینے میں ایک معنی خیز رول ادا کرسکتی تھی اور وہ بھی ہندوستان جیسے ملک میں جہاں جے این یو جیسے ادارہ کی تعداد کم ہے ، جسے آپ نے قومیت مخالف سرگرمی کا ایکاہم مرکز بنادیا ہے بلکہ اعلیٰ نظام تعلیم کو کمزور کرنے میں کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور حقیقت یہ ہے کہ
آپ کی تنظیم سے وابستہ لوگ تھوڑے پر ہی اکتفا کرنے والے ہوتے ہیں، آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ مختلف عوامی کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ بڑے پیمانے پر مشاورتی عمل شروع کرنے کیلئے بہت ہی مناسب چیز ہے۔ پھر اس کے برعکس موجودہ حکومت نے کئی عوامی کارکنوں مثلاً سودھا بھردواج کو شہری نکسل کی حیثیت سے جہاں ایک طرح گردانا تو وہیں دوسری طرف آپ کی تنظیم سے وابستہ سطحی معلومات رکھنے والوں کو متعدد یونیورسٹیوں میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرر کیا۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے زیر اثر جن چانسلرس کی مرکزی یونیورسٹیوں میں تقرری ہوئی ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق برہمن اور بنیا جیسی ذاتوں سے ہے۔
تعلیم یافتہ معاشرے کے اس عہد میں اس طرح کی حکومت کے بارے میں آپ کیسے سوچ سکتے ہیں اور اس طرح کا بے وقوفانہ فیصلہ ملک کی ترقی میں کیسے معاون ہوسکتا ہے ؟ شاید بیروزگار نوجوانوں کی نارا ضگی اور اضطراب نے تینوں اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی اہم وجہ بنی ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سو سالہ پرانی تنظیم عالمی ملکی اور علاقائی تعلیم یافتہ لوگوں کو بالکل اہمیت نہیں دیتی ہے۔ آپ کی اکھل بھارتی ودھیارتی پریشد نامی طلباء کی تنظیم کیمپس میں رہ کر بھی شاذ و نادر ہی طلباء کی تعلیمی زندگی میں تعاون دینے کی اہل رہی ہے ۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ ہندوستان میں دلتوں کو سماجی بچھڑا پن اور سماجی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ اب سماجی محرکات سے بہرہ ور ہورہے ہیں اور تعلیم کے حو الے سے امبیڈکر کی باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس طرح کا محرک آپ وویکانندا سے متعلق کیوں نہیں شروع کرتے ہیں اور تنظیم برائے طلباء سے ہندوستانی فلسفہ پر ایک سنجیدہ ورکشاپ منظم کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ہیں ؟
خلاصہ کلام یہ کہ میں اپنے بائیں بازو آزاد خیال ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے یہ سمجھتا ہوں کہ قومیت پرستی ایک مثبت سماجی طاقت ہوسکتی ہے جو جمہوریت کے فروغ میں اہم رول ادا بھی کرسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ قومیت پرستی کی تشہیر جس طرح آپ کی تنظیم کرتی ہے یہ سطحی ہو نے کے ساتھ ساتھ حقیقی سماجی تبدیلی سے کوسوں دور ہے۔
آج آپ کی تنظیم نہ تو سماجی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہتی ہے اور نہ ہی یونیورسٹیوں کو مضبوطی فراہم کرنے میں دلچسپی دکھاتی ہے۔ موجودہ حکومت کے ماتحت اگر کچھ ہورہا ہے تو وہ یونیورسٹیوں کو کمزور کیا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ کی تنظیم کو یہ خطرہ بار بار ستا رہا ہے کہ برہمن تفوق اور برتری خطرے میں ہے جس کی وضاحت ہمیں گوالکر کے خیال و نظریات اور تحریروں میں جابجا دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے دیگر منظم اور الہامی خدائی مذہبوں کی پیروی میں ہندوتوا کی طاقت سے کیا مراد ہے، کو غلط سمجھ لیا ہے ، وہ یہ کہ ہندو مذہب کی تلاش و جستجو میں تاریخ کے مطالعے کو غلط رخ دیتے ہوئے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوؤں کو لقمہ تر سمجھ کو پہلے مسلمانوں اور پھر انگریزوں نے حکومت کی کیونکہ اس بناوٹی عقیدہ کی وجہ سے لوگوںکو یہ بتانا بڑا ہی آسان ہوجاتا ہے کہ ہندوؤں کی بڑی عقلمندی سے بے وقوف بنایا گیا ہے ، جیسا کہ آپ سے وابستہ مختلف تنظیموں اور دیگر دائیں بازوؤں کی جماعتیں مسلسل غلط خبروں اور افواہوں کے ذریعہ لوگوںکو محرک کرنے کو جائز سمجھتی ہیں۔
موجودہ انتخابات سے بہت حد تک یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ رائے دہندگان اپنی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اب آپ سے وابستہ تمام تنظیموں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو معاشرے کو زیادہ سے زیادہ کھلا ذہن بنانے میں مثبت رول ادا کریں بجائے اس کے کہ تمام تر توانائی خوف و ہراس جیسے ماحول کو بنانے میں صرف کریں۔
آپ کا مخلص
اجئے گوداورتھی
اسوسی ایٹ پروفیسر
مرکز برائے سیاسی مطالعات ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
(اظہار کردہ خیالات ذاتی ہیں)