ایک سے زائد شادیاں اور دو سے زائد بچے پیدا نہ کریں! بسوا سرما

   

مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کو ریاست کا باشندہ بننے کیلئے چیف منسٹر آسام کی شرط
گوہاٹی: چیف منسٹرآسام ہیمنت بسوا سرما نے بنگالی بولنے والے مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کو ریاست کا اصل باشندہ بننے کیلئے کچھ شرائط پیش کی ہیں۔ انہوں نے کل بنگالی بولنے والے مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر وہ ریاست کے اصل باشندہ کے طور پر خود کی شناخت چاہتے ہیں تو انہیں دو سے زائد بچے پیدا کرنے اور ایک زائد شادیاں کرنا چھوڑنی ہوں گی نیز اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہوگا!واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے بعد آسام میں مسلمانوں کی دوسری سب سے زیادہ آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 34 فیصد ہے مگر آسام کی مسلم آبادی دو مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک گروپ بنگالی بولنے والے اور بنگلہ دیشی نژاد مہاجر مسلمانوں کا ہے جبکہ دوسرا گروپ آسامی بولنے والے مقامی مسلمانوں کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنگالی بولنے والی مسلم آبادی بنگلہ دیش ہوتے ہوئے آسام آئی ہے۔بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو تسلیم کرنے کے بارے میں وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما نے کہا انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے اور ایک سے زائد شادی کرنے سے رکنا ہوگا کیونکہ یہ آسامی ثقافت نہیں ہے۔ اگر وہ ریاست کا اصل باشندہ بننا چاہتے ہیں تو وہ اپنی نابالغ بیٹوں کی شادی نہیں کر سکتے۔ وزیر اعلیٰ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بنگالی بولنے والے مسلمان ’ستر‘ (ویشنو مٹھ) کی زمین پر قبضہ کرتے ہیں تو وہ مقامی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ مقامی کہلانا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے کے بجائے انہیں پڑھا لکھا کر ڈاکٹر اور انجینئر بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں (مسلمانوں کو) اپنی بیٹیوں کو بھی اسکول بھیجنا شروع کرنا چاہئے اور انہیں اپنے والد کی جائیداد میں حق ملنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ان (مسلمانوں) کے اور ریاست کے اصل باشندوں کے درمیان اختلافات ہیں۔ اگر وہ ان طور طریقوں کو ترک کر دیں اور آسامی لوگوں کی ثقافت کو اپنا لیں تو وہ بھی مقامی بن سکتے ہیں۔ دراصل2022 میں آسام کی کابینہ نے ریاست کے تقریباً 40 لاکھ آسامی زبان کے مسلمانوں کو ‘دیسی آسامی مسلمان’ کے طور پر تسلیم کیا۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جن کی بنگلہ دیش سے نقل مکانی کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ اس طرح وہ اصل باشندے سمجھے جاتے تھے لیکن اس کی وجہ سے ریاست کا مسلم معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ دوسرا حصہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا تھا جن کا ریاست کی کل مسلم آبادی میں 63 فیصد حصہ ہے۔