ایک شخص کے اطراف گھومتی بی جے پی کی سیاست

   

برکھا دت
گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ریکارڈ توڑ اکثریت سے کامیابی حاصل کی، اس بارے میں بی جے پی قائدین اور ورکروں کا دعویٰ ہے کہ یہ کامیابی دراصل مودی جی، ہندوتوا، راشٹرواد اور وکاس کے باعث حاصل کامیابی ہے۔ ریاست میں بی جے پی کی کامیابی کے جشن مناتے ہوئے پارٹی کے ایک پرجوش ورکر نے وندے ماترم کے بلند نعروں اور گربا کے باجوں کے درمیان مذکورہ خیالات ظاہر کئے۔ اگر دیکھا جائے تو ایک شخصیت کے اطراف گھومنا، بہبودیٔ عام، قوم پرستی اور ہندوتوا مودی برانڈ کے حصے ہیں اور جہاں تک مودی برانڈ کا سوال ہے، گجرات میں شاندار کامیابی کے بعد یہ برانڈ اس قدر مضبوط و مستحکم ہوا ہے کہ شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، اس نے ریاست میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے شاندار انتخابی مظاہرہ کا 37 سالہ قدیم ریکارڈ توڑ دیا (ویسے بھی ریکارڈس بنتے ہیں ٹوٹنے کیلئے اور زندگی میں ایسا مرحلہ آتا ہے جو کسی نہ کسی طرح سب سے بڑے مانے جانے والے ریکارڈ کو توڑ دیتا ہے) بی جے پی نے نہ صرف 1985ء میں کانگریس کے قائم کردہ ریکارڈ کو توڑ دیا بلکہ مسلسل ساتویں مرتبہ کامیابی کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ ساتھ ہی اس مرتبہ بی جے پی نے ماضی کے مقابل اپنے ووٹ شیئر حصہ میں بھی اضافہ کیا اور 50% سے زائد ووٹ حاصل کئے جس سے ریاست میں بی جے پی باالفاظ دیگر نریندر مودی کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے، گجرات کے انتخابی نتائج وزیراعظم نریندر مودی کی ان کی اپنی آبائی ریاست میں مقبولیت اور غیرمعمولی عوام تائید و حمایت کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کامیابی کے پیچھے وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی کسمپری ہے جنہوں نے بی جے پی کی الیکشن مشنری کی بجائے اپنی سیاسی حکمت عملی کو روبہ عمل لایا۔ وزیراعظم کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ ریاست گجرات میں حکومت مخالف لہر چل رہی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی نے ہمیشہ مقامی مسائل کو اٹھایا اور عوام میں حکومتوں کے خلاف برہمی پیدا کرکے اس برہمی کے سیاسی فوائد حاصل کئے۔ اس حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی نے گجرات کے 44 ارکان اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دیا اور 2017ء میں کانگریس سے کامیاب ہونے والے تقریباً 30 نئے چہروں کو پارٹی میں شامل کیا۔ حد تو یہ ہے کہ سابق چیف منسٹر وجئے روپانی اور سابق ڈپٹی چیف منسٹر کو ٹکٹ دینے سے بھی انکار کردیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی میں کئی ایک ایسی مثالیں ہیں جہاں عہدۂ چیف منسٹری کے دعویدار امیدوار کو شکست ہوئی لیکن بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا۔ مثال کے طور پر اتراکھنڈ وہاں بی جے پی کے عہدہ چیف منسٹری کے امیدوار کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم بی جے پی کو کامیابی ملی۔ ایک بات ضرور ہے کہ گجرات میں مودی کا جادو چل گیا لیکن ہماچل پردیش کے عوام نے یہ بتادیا کہ اسمبلی اور مقامی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی پر انحصار کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ہماچل پردیش میں مقامی مسائل نے بی جے پی کا بیڑہ غرق کردیا۔ مثال کے طور پر سیب کے کسانوں کا مسئلہ اور بی جے پی قائدین جئے رام ٹھاکر اور پریم کمار دھومل کیمپوں کے داخلی اختلافات نے ریاست میں بی جے پی کو ناکامی کی راہ دکھائی۔ بی جے پی اگرچہ گجرات اسمبلی انتخابات کو لے کر بہت خوش اور نازاں ہیں لیکن ہماچل پردیش اور دہلی بلدی انتخابات میں اقتدار سے بیدخلی نے اس بات کا انکشاف کردیا ہے کہ بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی ناقابل تسخیر ہیں۔ اگر اپوزیشن عوامی مسائل کو بہتر انداز میں پیش کرے اور لوگوں کو اس بات کا قائل کرے کہ بی جے پی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے اور سب سے زیادہ اثر ان کے گھروں پر ہوا ہے، چاہے وہ مہنگائی اور بیروزگاری کا اثر ہی کیوں نہ ہو تب بی جے پی کو ہرایا جاسکتا ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ہماچل پردیش اور دہلی میں عوام نے مقامی انتخابات کے لحاظ سے ووٹ دیا۔ اس کی روشن مثال دہلی ہے جہاں لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی لیکن دارالحکومت میں بی جے پی 1998ء سے اقتدار پر نہیں ہے۔ اب تو وہ ایم سی ڈی پر 15 سال سے قائم اپنے اقتدار سے محروم ہوگئی ہے۔ ایم سی ڈی پر عاپ نے قبضہ کرکے بی جے پی کی گرفت کمزور کردی ہے۔انتخابی موسم کی ایک اور بڑی کہانی قومی اسٹیج پر عام آدمی پارٹی کی آمد سے متعلق ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کی مہم میں عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر اپنے پارٹی امیدوار کے کامیاب ہونے کے امکانات ظاہر کئے تھے۔ باالفاظ دیگر انہوں نے دعوے کئے تھے اور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ریاست میں کانگریس 5 نشستوں پر سمٹ جائے گی اور عام آدمی پارٹی حکومت تشکیل دے گی تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں جہاں مودی ۔ شاہ کا بول بالا ہے، عام آدمی پارٹی نے 13% ووٹ حاصل کئے جبکہ دہلی بلدی انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ اس طرح عام آدمی پارٹی نے یہ بتا دیا کہ وہ ایسی پارٹی نہیں جسے نظرانداز کیا جائے۔ اسے کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے اپنے قیام کے اندرون 10 سال ہی دہلی، دہلی بلدیہ اور پنجاب میں اقتدار حاصل کرلیا۔ گجرات میں 13% ووٹ بٹورے جو غیرمعمولی مظاہرہ ہے۔ عاپ مزید بہتر مظاہرہ کرسکتی تھی لیکن پارٹی کیڈر نہ ہونے کے باعث وہ مزید بہتر مظاہرہ کرنے سے قاصر رہی۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام اپوزیشن لیڈروں میں اروند کجریوال ہی قومی سطح پر اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں اور عام آدمی پارٹی کے اُبھرنے سے کانگریس بہت زیادہ خوف زدہ ہے۔ (عام آدمی پارٹی، بی جے پی کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے، جو بی جے پی کو اس کے ہی ہندوتوا کے ذریعہ چیلنج کررہی ہے۔ گجرات میں کانگریس کا مظاہرہ بدترین رہا، لیکن ہماچل پردیش میں اقتدار حاصل کرتے ہوئے اسے کچھ راحت ملی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کو کانگریس نے اقتدار سے محروم کردیا ہے، لیکن بی جے پی خاموشی سے اپنی شکست تسلیم کرنے والی نہیں بلکہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کرے گی کہ بازی پلٹ جائے۔ ہماچل پردیش میں حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ کانگریس کو اپنی حکومت بچانے خاص طور پر بی جے پی کے ’’آپریشن لوٹس‘‘ (آپریشن کنول) سے بچانا ضروری ہے، ورنہ مدھیہ پردیش، کرناٹک میں جس طرح بی جے پی نے اسے اقتدار سے بے دخل کیا، اسی طرح ہماچل پردیش میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ تصور کیجئے! اگر ہماچل پردیش میں عام آدمی پارٹی بہت زیادہ سنجیدہ مقابلہ کرتی تو کیا ہوتا؟ صورتحال کافی پیچیدہ ہوجاتی۔ مخالف بی جے پی ووٹ تقسیم ہوتے تو نتائج کچھ اور برآمد ہوتے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان 38,000 ووٹوں کا فرق رہا۔ اس مرتبہ راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ اور انتخابی سیاست کے درمیان جو علیحدگی کا ماحول رہا ، وہ بھی ایک پراسرار حالت کی طرح رہی۔ اب یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ 2017ء اسمبلی انتخابات میں راہول گاندھی اور کانگریس کے سینئر قائدین نے ریاست گجرات میں سرگرم مہم چلائی۔ نتیجہ میں کانگریس کو 77 نشستوں پر اور بی جے پی کو 99 حلقوں میں کامیابی ملی لیکن اس مرتبہ راہول گاندھی اپنی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ سے جڑے رہے۔ آخر کانگریس کی کیا پالیسی اور کیا حکمت عملی رہی وہ ناقابل فہم ہے۔ اس لئے کہ ہر حکمت عملی کامیابی حاصل کرنے تیار کی جاتی ہے تاہم گجرات میں کانگریس کی حکمت عملی کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ گجرات میں کانگریس کی حکمت عملی اشوک گیہلوٹ کے حوالے کی گئی جبکہ ہماچل پردیش میں سچن پائیلٹ نے کامیاب نگرانی کی۔ کانگریس کو کم از کم ان ریاستوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان ریاستوں میں اسے قیادت کا مسئلہ حل کرنا ہوگا تاکہ شکست کے خطرہ سے بچا جاسکے۔