ایک قوم ‘ صرف نعرہ

   

اور سب چن لے میرے دامن سے
زخمِ دل کے گلاب رہنے دے
ایک قوم ‘ صرف نعرہ
ملک کو درپیش انتہائی سنگین بحران کے وقت میں آج وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ایک اجلاس میں کہا کہ اگر کورونا بحران کے اس وقت میں ہم سب ایک قوم کی طرح کام کریں تو پھر کسی چیز کی قلت نہیں پیدا ہوگی ۔ یہ نعرہ اکثر و بیشتر دیا جاتا ہے کہ ایک قوم ہے تو ایک ٹیکس نظام ہونا چاہئے ۔ ایک قوم ہے تو ایک راشن کارڈ ہونا چاہئے ۔ ایک قوم ہے تو پھر ایک قانون ہونا چاہئے لیکن یہ صرف حکومت کیلئے موافق مسائل پر ہی کہا جاتا ہے جبکہ ہونا تو ہر مسئلہ میں چاہئے لیکن ہوتا نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ ہم اپنی سہولت کے اعتبار سے کوئی بھی نعرہ اختیار کرتے ہیں اور پھر اسے فراموش کردیتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ملک میں ایک قوم کی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کورونا کے اس سنگین اور مشکل ترین بحران کا سامنا کیا جاسکے اور اس سے نمٹنے میں ملک کے عوام کی ممکنہ حث تک مدد کی جاسکے ۔ آج بھی وزیر اعظم نے ایک اجلاس میں یہ واضح کیا کہ ریاستوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ درست ہے کہ ریاستوں کو کام کرنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون چاہئے لیکن مرکزی حکومت ایک قوم کی طرح ساری ریاستوں کے ساتھ سلوک اختیار نہیں کر رہی ہے ۔ ملک کی ایسی کئی ریاستیں ہیں جنہوں نے شکایت کی ہے کہ ان کیس اتھ مرکزی حکومت کا رویہ انصاف پر مبنی نہیں ہے اور ان کے ساتھ حق تلفی کی جا رہی ہے ۔ ملک میں کورونا بحران سے سب سے زیادہ متاثر ریاست مہاراشٹرا نے تو ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ اس کو ویکسین کی سربراہی میںامتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سب سے زیادہ متاثرین مہاراشٹرا میں ہیںاس کے باوجودا سے درکار تعداد سے کافی کم ویکسین فراہم کی گئی کیونکہ یہاں اپوزیشن کی حکومت ہے ۔ اس کے برخلاف مدھیہ پردیش اور گجرات میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے صورتحال سنگین نہ ہونے کے باوجود وہاں زیادہ تعداد میں ویکسین فراہم کی گئی ہے ۔ یہ ایک قوم کی حیثیت سے کام کرنے کا رجحان نہیں کہا جاسکتا ۔ اگر خود مرکز ریاستوں سے دو نظری دکھائے تو پھر ایک قومی نظریہ کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے ۔
اسی طرح اب جبکہ کورونا بحران نے انتہائی شدت اختیار کرلی ہے تو کئی ریاستوں کا یہ بھی الزام ہے کہ ادویات اور آکسیجن کی فراہمی میں بھی امتیاز کیا جا رہا ہے ۔ یہ امتیاز محض اس لئے ہے کیونکہ یہاں بی جے پی کی حکومتیں قائم نہیں ہیں۔ خود تلنگانہ میں وزیر صحت ایٹالہ راجندر نے کہا تھا کہ ویکسین اور آکسیجن دونوں کی سربراہی میں تلنگانہ کے ساتھ جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ دوسری ریاستوں سے بھی اسی طرح کی اطلاعات مل رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت ان کے ساتھ انصاف نہیں کر رہی ہے ۔ جب خود مرکزی حکومت اگر ملک کی اپنی ہی ریاستوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے اور جانبداری برتے اور وہ بھی صرف اور صرفسیاسی بنیادوں پر تو یہ انتہائی افسوس کی بات ہے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ سارا ملک کورونا کے عتاب کا شکار ہے ۔ ہر شہری اور ہر گلی میں موت کا رقص چل رہا ہے ۔ کوئی بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے ۔ کسی ریاست میں صورتحال معمول کے مطابق نہیں ہے ۔ ہر ریاست اور ہر شہر میں یا تو نائیٹ کرفیو ہے یا پھر جزوی لاک ڈاون ہے یا پھر ویکنڈ لاک ڈاون نافذ کیا گیا ہے ۔ اس صورتحال میں بھی اگر خود مرکزی حکومت جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور ایک قوم کی طرح کام کرنے سے گریز کیا جاتا تو پھر اس سنگین اور مہلک وائرس سے نمٹنے کی ہماری جدوجہد بھی محض علامتی بن کر رہ جائے گی ۔
ایک قوم کی طرح کام کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی ریاست کو اس کے جائز حقوق سے محروم کردیا جائے اور پھر اسے اعتراض کرنے کا موقع بھی نہ دیا جائے ۔ آج اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو وہ زر خرید ٹی وی اینکر بھی نظر نہیں آتے جو حکومت کے تلوے چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بھی حکومت کو اس کی جانبداری اور اس کے دو نظری رویہ سے واقف کروانا نہیںچاہتے ۔ حکومت کو بحران کے اس وقت کی سنگینی کا احساس دلانے کی بجائے یہ لوگ حکومت کو بچانے کیلئے عوام سے حقائق کی پردہ پوشی کی مکروہ کوششیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی عوام کی مشکلات کو ایک قوم کی مشکل سمجھنے کی بجائے اس پر بھی اوچھی حرکتیں کرنے لگتے ہیں تو اس سے ایک قوم کا نعرہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ حقیقی معنوں میں ایک قوم کی طرح اس وباء سے نمٹنے کیلئے خود مرکز کو پہل کرکے مثال قائم کرنی ہوگی ۔