ایک ڈالر 80 روپئے

   

کسے آواز دی جائے روپئے کے نام سے پہلے
ذرا میں پوچھ تو لوں گردشِ ایام سے پہلے
ہندوستانی روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے ۔ پہلی مرتبہ روپئے کی شرح انتہائی کم ہوگئی تھی ۔ آج ایک ڈالر 80 روپئے کے نشانہ کو پار کر گیا تھا تاہم بعد میں قدرے بہتری آئی اور ایک ڈالر کی قیمت 80 روپئے سے کچھ کم ہوئی ۔ تاہم اب بھی یہ قیمت بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی اس کا منفی اثر ہو رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے روپئے کی قدر میں گراوٹ پر کوئی ایسے اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آئے اور روپئے کی قدر میں استحکام پیدا ہوسکے ۔ جس وقت ماضی میں ہندوستانی روپئے کی قدر ڈالر کے مقابلہ میں 60 روپئے ہوگئی تھی اس وقت آج کی برسر اقتدار جماعت بی جے پی نے ‘ جو اس وقت اپوزیشن میں تھی ‘ ملک بھر میں ہنگا مہ خیز احتجاج کیا تھا ۔ یہ دعوے کئے گئے تھے کہ کمزور حکومت کی وجہ سے روپئے کی قدر میں کمی گراوٹ آ رہی ہے ۔ حکومت کی نا اہلی کو اس کیلئے ذمہ دار قرار دیا گیا تھا ۔ کئی طرح کے الزامات عائد کئے گئے تھے لیکن آج وہی بی جے پی زیر قیادت حکومت اس بات کی وضاحت کرنے کے موقف میں نہیں ہے کہ آج روپئے کی قدر میں گراوٹ کیوں آتی جا رہی ہے ۔ ملک کی معیشت پر کیوں مسلسل منفی اثرات مرتب ہوتے جا رہے ہیں۔ کیوں فیول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کیوں بیرونی کمپنیاں ہندوستان سے سرمایہ نکاسی پر توجہ دیتے ہوئے ملک سے باہر جا رہی ہیں۔ جو سرمایہ کاری بیرونی کمپنیوں نے ہندوستان میں کی تھی اب وہ کیوں اپنے سرمایہ کو نفع کے ساتھ بیرونی ممالک کو منتقل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں نے ہندوستان میں روپئے کمائے اور اب بیرونی ممالک کو ڈالرس منتقل کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے ۔ ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اورا س کی وجہ سے روپئے کی قدر میں گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ مرکزی حکومت ایسے حالات پیدا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں جن کے ذریعہ بیرونی کمپنیوں کو ہندوستان سے باہر جانے سے روکا جائے ۔
بیرونی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ نکاسی کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے جامع اور موثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حکومت اپنے طور پر جو اقدامات کر رہی ہے ان سے یہ بیرونی کمپنیاں مطمئن نظر نہیں آ رہی ہیں۔ جو سرمایہ انہوں نے ہندوستان میں مشغول کیا تھا نہ صرف اسے واپس لیا جا رہا ہے بلکہ جو دولت انہوں نے ہندوستان میں کمائی تھی وہ بھی وہ بیرون ملک واپس لے جا رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے اور شائد یہی وجہ ہے جس کے نتیجہ میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہندوستانی روپیہ مسلسل کمزور ہو رہا ہے ۔ روپئے کی قدر میںگراوٹ کی وجہ سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں وہیں ملک میں سرمایہ کی کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ صنعتی سرگرمیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ افراط زر کی شرحوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ مہنگائی وجہ سے عوام کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ لوگ اپنی نوکریوں اور روزگار سے محروم ہو رہے ہیں۔ جو بیرونی کمپنیاں ہندوستان سے واپسی کا سفر اختیار کر رہی ہیں ان میں ملازمتوں میں بڑی حد تک تخفیف کی گئی ہے اور جو لوگ روزگار سے محروم ہوئے ہیں انہیں نئی نوکریاں دستیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ یہ سارا کچھ ڈالر کے مقابلہ میں ہندوستانی روپئے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے اور حکومت سے بظاہر ایسے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے حالات میں بہتری آسکے ۔
ڈالرس کے مقابلہ میں روپئے کی قدر میں جو گراوٹ آئی ہے اس کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستانی معیشت نے گذشتہ تین دہوں کے درمیان جو معاشی ترقی کی ہے وہ مثالی رہی ہے ۔ ساری دنیا نے ہندوستان کی معاشی ترقی کا اعتراف کیا ہے ۔ ہندوستان کو ایک معاشی طاقت کے طور پر قبول کیا گیا ہے ۔ کئی بیرونی کمپنیاں از خود ہندوستان میں سرمایہ مشغول کرنے تیار ہو رہی تھیں ۔ ملک میں مواقع تلاش کر رہی تھیں۔ تاہم اب جو صورتحال بتدریج خراب ہوئی ہے اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونا فطری بات ہے ۔ صورتحال کو بہتر بنانے پر فوری توجہ اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ تین دہوں کی مشقت کے بعد معیشت کو جو استحکام ملا تھا وہ متاثر نہ ہونے پائے اور عوام کی مشکلات میں بھی کمی لائی جاسکے ۔