ایک کے بعد دیگر نعشیں گر رہی تھیں‘ میں جانتا نہیں کہ میں زندہ کیسے ہوں‘

,

   

ظہیرالدین جس کی دوماہ قبل پرمیتا بی بی سے شادی ہوئی تھی‘ سیب کے باغات میں فصل کے موسم (اکٹوبر‘ ڈسمبر) کے دوران کام کرنے کے لئے گئے تھے۔
کلگام /مرشد آباد۔منگل کے روز کلگام میں بندوق سے گولیاں برسانا جب بند ہوا‘پچیس سالہ ظہیر الدین کو مردہ حالت میں چھوڑ دیاگیا تھا۔
مگر وہ مرشد آباد میں ساگریدھی میں گھر واپس آکر اپنی بیوی کو کہانی سنانے کے لئے وہ زندہ رہ گیا۔ظہیرالدین جس کی دوماہ قبل پرمیتا بی بی سے شادی ہوئی تھی‘ سیب کے باغات میں فصل کے موسم (اکٹوبر‘ ڈسمبر) کے دوران کام کرنے کے لئے گئے تھے۔
مگر وہ منگل کے روز اپنے ساتھ گاؤں کے والوں کے ساتھ دہشت گردوں پر نرغے میں آگیاتھا‘ مذکورہ چھٹا حملہ جو جنوبی کشمیر میں غیر علاقائی لوگوں کے اوپر تھا جو جموں او رکشمیر کے خصوصی موقف کو ارٹیکل370ہٹائے جانے کے متعلق مرکز کے فیصلے کے بعد ہوا ہے۔
ظہیرالدین مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ان چھ لیبروں میں سے ایک ہے جس کو کلگام ضلع میں دہشت گردوں نے گھر سے نکال کر گولیو ں سے بھون دیا۔ ان پانچ میں مرسلین شیخ‘ قمر الدین شیخ‘ شفیق شیخ‘ نظام الدین شیخ اور رفیق الشیخ ہیں جس کاتعلق ساگرادھی سے ہے اور ظہیر الدین کو مردہ چھوڑ دیاگیاتھا
۔ انہوں نے چہارشنبہ کی صبح ایس ایم ایچ ایس اسپتال جو سری نگر میں ہے وہاں سے اپنی بیوی او رما ں ے بات کی اور منگل کے روز 8بجے شروع ہوئی خوفناک رات کی کہانی سنائی۔ پریتما نے بتایا کہ ظہیر الدین کو ”د ونوں پیروں میں اور سینے میں سیدھے طرف گولی لگی ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کافی درد ہے اور حرکت کرنے سے قاصر ہیں“۔انڈین ایکسپرس سے بات کرتے ہوئے ظہیر الدین نے کہاکہ ”ہم اس وقت کمرے میں تھے جب ایک بندو ق بردار آیا اور ہم سے نیچے آنے کا استفسار کیا۔
باہر مزید تین اور گن مین انتظار کررہے تھے۔ ہمیں قریب کے علاقے میں لے جایاگیا اور قطار میں کھڑے ہونے کے لئے کھاگیا۔ پھر انہوں نے ہم پر فائیرنگ شروع کردی۔ ایک کے بعد دیگر نعشیں زمین پر گر رہی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ میں زندہ کیسے ہوں“۔
انہوں نے اپنی بیوی کو بتایاکہ”اتفاق سے میں نعشوں کے ڈھیر کے نیچے تھا اور میرا پیر ہی دیکھ رہاتھا“۔
مارے جانے کے بعد وہ پانچ لوگ ظہیر الدین کے اوپر گرے تھے۔ ظہیرالدین اور پانچ متوفیوں کے علاوہ اسی علاقے کے تین لوگ ہیں جو کلگام میں کام کررہے ہیں۔ حملہ کے وقت وہ کہیں دور تھے