’’اے ارض مقدس تجھے میرا سلام ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ارضِ فلسطین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے ایک متبرک مقام ہے ۔ مسجد اقصیٰ ، مسلمانوں کا قبلۂ اول اور خانۂ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ روئے زمین پر بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد اقصیٰ چالیس سال بعد تعمیر ہوئی۔ (صحيح مسلم ) مسجد اقصیٰ در حقیقت مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور صحرائے سینا کے پہاڑ طور کی اور اس امن والے شہر کی۔ (سورۃ التین) 
حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں ۔’’التین‘‘ سے مراد سرزمین شام ہے ’’ زیتون‘‘ سے مراد فلسطین ہے اور طور سینا مصر کا وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے اور ’’ بلد الامین‘‘ سے مراد مکه مکرمه ہے ۔
فلسطین کے سابق صدر یاسر عرفات مرحوم نے اپنے ہاتھ میں زیتون کی ایک ٹہنی پتہ کے ساتھ پکڑ کر’’ قاصد امن ‘‘ کے طور پر اپنی شناخت کرلی تھی اور ساری دنیا کو امن کا پیغام دیا تھا ۔ ۱۹۸۸؁ء میں وہ امن کے نوبل انعام سے نوازے گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے لکھ دیا زبور میں کہ نیکو کار بندے اس ملک کے وارث ہونگے ‘‘ (سورۃ الانبیا) یہود اس کو اپنا ’’و عده شده‘‘ PROMISED LAND تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ مفسرین قرآن کی رائے میں اُمتِ مسلمہ محمدیہؐ ہی اس مقدس سر زمین کی وارث ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ اے محمدؐ ہم نے آپ کو تمام جہانوںکے لئے رحمت بناکر بھیجا ( سورة الانبياء)
اے زمانے تجھے کیا خبر ہم فقیروں کو کیا مل گیا
دولت دو جهاں مل گئی دامنِ مصطفےٰ ؐمل گیا
یہود ارضِ فلسطین پر اپنے نا جائز قبضہ کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اُن کے آباء و اجداد کسی زمانے میں یہاں بستے تھے۔
اُن کے اس بوگس دعوے کا شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے یوں جواب دیا ؎
ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
کیوں کہ مسلمانوں کے آباو اجداد نے اسپین میں لگ بھگ ۷۰۰ سال مثالی حکومت کی ۔ خلافت عثمانیہ کے تابناک دور میں یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کا ، کاروبار کرنے اور رہائش اختیار کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا البته وہ ویزا لیکر فلسطین آسکتے تھے اور مقدس مقامات کی زیارت کر سکتے تھے ۔ خلافت عثمانیہ کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا تو جرمنی میں ہٹلر اور نازی حکومت کے ہاتھوں یہودیوں کا ( Holocast) نسل کشی کے بعد یہودی تارکین وطنوں کو فلسطین آنے جانے اور زمین خریدنے کی کھلی اجازت دیدی گئی ۔ یہ وہ خطرناک وقت تھا جب یہودیوں نے دنیا بھر سے دولت اکٹھی کر کے دوگنی چوگنی قیمتوں پر فلسطین کا ایک بڑا حصہ خرید لیا اور اصل مالکان یعنی فلسطینیوں کو بے دخل کرتے گئے اور اُن پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا گیا۔ جو آج ثابت ہو رہا ہے ۔
۱۹۴۸ء؁ میں بالفور معاہدہ کو نا قبول کرنا اُس وقت کے عرب رہنماؤں کا غیر دانشمندانہ اقدام تھا( جس میں ایک محدود کوٹہ میں جرمنی سے تاریک وطن یہودیوں کو آنے کی اجازت دی گئی تھی صرف 10% سرزمین فلسطین پر ) اس فاش غلطی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل کی صیہونی حکومت نے امریکی اور دیگر مغربی ممالک کی سرپرستی میں سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر کے خون کی ہولی کھیلتا رہا ہے۔ جس پر ساری دُنیا خاموش تماشائی بن بیٹھی ہے۔
اسرائیل کی صیہونی حکومت کو یہ بھولنا نہیں چا ہے کہ اُس کے لوگوں کے بُرے وقت میں اُس کے ادیان ابرا ہیمیؑ کی نسبت سے مسلمان بھائی (Cousin) ہی نے اپنا دل بڑا کر کے اُنہیں پناہ دی جس کا اُس نے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور نیکی کا بدلہ ظلم و ستم اور قتل و غارت گری سے دیا ۔ لعنت ہے تجھ پر !
رحمت للعالمینؐ نے مشکل وقت میں مشرکین مکہ سے غیر مشروط ’’صلح حدیبیہ ‘‘کر کے انسانی تاریخ میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نیک عمل کا ’نعم البدل ‘ فتح مکہ میں دیا جو بغیر کسی خون خرابے کی ملی۔ الحمدلله
’’اے محمدؐ ! ہم نے آپ کو فتح دی۔ فتح بھی صریح اور صاف‘‘ (سورۃ الفتح)
رسول اللہ ﷺ کے اس ’’صلح حدیبیہ‘‘ اسلامی حکومت اور معاشرہ کی تعمیر کا ایسا موقعہ ملا جو دنیا کے لئے اپنی مثال آپ بن گیا ۔ کاش کہ اُس وقت کے عرب رہنما رحمت للعالمین کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ’بالفور معاہدہ‘ کو قبول کرتے اور یہودیوں کے ساتھ مل کر جو بہت زیادہ تعلیمیافتہ اور ہنر مند تھےفلسطین کی جس طرح تعمیر نو کرتے تو آج کے حالات کچھ اور ہی ہوتے ! بالکل اُسی طرح حضرت عمر نے سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے بیت المقدس بغیر کسی خون خرابے کے فتح کیا اور ’’پر امن صلح‘‘ کا معاہدہ کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی سال تک مسلمان، عیسائی اور یہود ایک دوسرے کے ساتھ پُرامن رہے اور خطہ میں امن و امان قائم ہوا ۔
مسلمانو ! آج کے اس دلخراش حالات سے مایوس نہ ہوں اور اللہ تعالی کے اس ارشاد کو یاد رکھو ’’اور آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب خدا کا ہے اور خدا ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (سورۃ النساء) اللہ کی غیبی مدد ایک دن آکر رہیگی ان شاء اللہ ۔ دونوں فریقین کو معلوم ہونا چا ہے کہ جنگ و جدال صرف ہلاکت اور بربادی لاتی ہے اور ’’پُرامن صلح ‘‘ ہی امن و امان کی ضامن ہے ۔ اس مقدس سرزمین اور اُس کے اہل وطن کے لوگوں کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہیے ۔ اللہ ہمارا اور اُمت مسلمہ کا حاضر و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین