اے پی پی جے کے میں زیادہ تر پاکستان ہیں یا پھر پو او کے ثقافت سے ان کا تعلق ہے‘ ان میں سے ایک بھی پی ائی او کا نہیں ہے‘ تمام مخالف ہندوستانی ہیں

,

   

لندن۔دا بیا ابراہیم کی نگرانی میں کشمیر کو آنے والے پارلیمنٹری گروپ‘ جس کو پیر کے روز ہندوستان آنے کے لئے ویزا دینے سے انکار کردیاگیاتھا کہ زیادہ تر ممبران کا تعلق پاکستان سے ہے یا پھر پی او کے سے ان کا تعلق ہے‘

تمام کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والوں میں شامل ہیں۔

جبکہ کل جماعتی پارلیمنٹری کشمیری گروپ(اے پی پی جی کے) نے دعوی کیاہے کہ ”بات چیت کے ذریعہ کشمیری عوام کے حقوق کے خود احتساب“ کے لئے اور ”کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو اجاگر کرنے اور وہاں کے لوگوں کو انصاف کی فراہمی“ کے لئے اس میں کسی بھی ممبر کا ہندوستانی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ابراہم جو ان کی قیادت کررہے تھے کو پیر کے روز دہلی میں ایمگریشن عہدیداروں کی جانب سے جانکاری دئے جانے کے بعد یہ کہتے ہوئے دوبئی منتقل کردیاگیاتھا کہ ان کا ای ویزا غیر کارگرد ہوگیاہے۔

اے پی پی جی کے نومبر2019کے رجسٹرر کے مطابق‘ ممبرشپ کے تازہ ترین ریکارڈ کے حوالے سے مذکورہ گروپ کے سینئر وائس چیر من لیبر رکن پارلیمنٹ برائے براڈ فورڈ ایسٹ عمران حسین ہیں‘

جو کہ ایک پاکستانی نژاد انگریز ہیں اور پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستان کے خلاف نہایت نفرت انگیز زبان کا انہوں نے استعمال کیاہے۔

ستمبر2019میں ایل او سی اور پی او کے کا دورہ کرنے کے بعد انہوں نے پاکستانی ملٹری ایک سینئر عہدیدار کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے برطانیہ کے ایک مقامی نیوز پیپر میں اس بات کا دعوی کیاہے کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ”جنگی جرائم“ ہیں۔

پارلیمنٹری گروپ کے اعزازی صدر پی او کے کے میر پور میں پیدا ہونے والے لارڈ نظیر احمد جو ایک غیر مصدقہ یوکے پیر ہیں۔ برطانوی پاکستانیوں کی جانب سے 15اگست کے روز انڈین ہائی کمیشن لندن میں پچھلے سال ہونے والے احتجاجی دھرنے کے وہ کلیدی مقررین میں سے ایک تھے‘

جہاں پر احتجاجی مظاہرہ تشدد میں تبدیل ہوگیاتھا اور انڈین ہائی کمیشن کی عمارت کو نشانہ بنانے کاکام کیاگیاتھا۔اس کے علاوہ ایک اور اعزازی صدر پاکستان میں پیدا ہونے والے منچسٹر گورٹن کے رکن پارلیمنٹ افضل خان بھی ہیں جو 5اگست2019کے روز یوکے کے وزیر اعظم بورس جانسنس کو لکھے گئے

مکتوب پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں‘ جس میں ح”حکومت ہند کی جانب سے کی گئی کاروائی کی سختی کے ساتھ مذمت کی“ اور اس کو ”کشمیر سے ارٹیکل370کی برخواستگی کو غیر قانونی او رغیر ائینی“ قراردیا تھا۔

اس کے علاوہ گروپ کے سکریٹری پاکستان کے کوتلی میں پیدا ہونے والے لارڈ حسین لیبر ڈیموکرٹیک کے سیاسی لیڈر اور عوامی نمائندے ہیں اور کھل کر کشمیر معاملے میں ہندوستان کی مخالفت کرتے ہیں۔

لندن میں ہندوستانی سفارت خانہ کے ایک ذرائع نے ٹی او ائی کو بتایا کہ ”اس طرح کے واقعات کودیکھنے کے بعد اے پی پی جی نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے بدمعاش عناصر کو وہ مدعو کرتے ہیں تو اور جن معاملات کی وہ حمایت کرتے ہیں‘ مجھے کوئی حیرت نہیں ہے کہ وہ ان کے رکن ہیں“۔

ابراہم کو 7اکٹوبر2019کے روز ہمہ وقتی کاروباری ای ویزا جاری کیاگیاتھا جس کی اہلیت5اکٹوبر2020تک ہے۔ فبروری14کے روز انہیں ایک ای میل روانہ کرتے ہوئے اس بات کی جانکاری دی گئی کہ ان کا ای ویزا منسوخ کردیاگیا ہے اور مگر مستقبل ویزا کے وہ اہل ہیں