بابری مسجد رام جنم بھومی اور بدھ مت کے آثار

   

رام پنیانی
ملک لاک ڈاون کے تحت ہے ۔ بیشتر سرگرمیاں جو پیداوار اور تعمیر سے تعلق رکھتی ہیں چند ایک کے سوائے منجمد ہیں۔ ایسی ایک سرگرمی رام مندر کی تعمیر بھی ہے اس کی راہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہموار کردی ہے۔ یہ فیصلہ وسیع پیمانے پر مباحث کے بعد کیا گیا تھا کیونکہ مسلم فریق کا ادعا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو وہ اسے قبول کرلیں گے۔ ہندو فریق، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے کئی بار اور بار بار اشارہ دیا تھا کہ کچھ بھی ہو شہر کے اس مقام پر مندر تعمیر کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کی دانش کو صرف اراضی کی قانونی ملکیت کا جائزہ لینا تھا کیونکہ قبل ازیں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے (2010)، ہندووں کا عقیدہ تھا کہ لاڈ رام یہیں پیدا ہوئے تھے ، بنیادی طور پر اراضی کے تین حصے کردیئے گئے تھے۔ چنانچہ سنی مسلم وقف بورڈ اس اراضی پر قانونی قبضہ رکھتا تھا ، ہندو قوم پرستوں کے لئے جشن مسرت کے علاوہ حکومت نے مندر کی تعمیر کی ذمہ داری قبول کرلی۔

بی جے پی کے امیت شاہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اعلان کردیا تھا کہ مندر شاندار ہوگا اور فلک بوس ہوگا۔ کام کا آغاز 11 مئی کو ہوا۔ بعد ازاں کام روک دیا گیا جو اب پھر جاری ہوگیا ہے۔ وی ایچ پی کے ترجمان ونود بنسل نے دعویٰ کیا کہ کئی مضامین میں آیا ہے جبکہ اراضی ہموار کی جارہی تھی۔ اس میں وہ مضامین بھی شامل ہیں جو آثار قدیمہ کی حیثیت سے اہمیت رکھتے ہیں، جیسے پتھر سے پھول تراشے گئے۔ آملاک ڈور جامب وغیرہ۔

اس کے علاوہ اس کام کے دوران 5 فیٹ شیولنگ تراشا گیا۔ کالے پتھر کے 7 ستون، سنگ سرخ کے 6 ستون اور دیوتاووں اور دیویوں کی ٹوٹی ہوئی مورتیاں بھی دریافت کی گئیں۔ اس سے دو قسم کے ردعمل منظر عام پر آئے۔ ایک تنقید تھی جس کی وجہ سے تاریخ داں خاص طور پر رومیلا تھاپر اور عرفان حبیب کی تھی۔ انہوں نے ملک کو گمراہ کیا اور بابری مسجد کا تنازعہ کھڑا کیا جبکہ کے کے محمد ایک ماہر آثار قدیمہ ہیں جنہوں نے نشاندہی کی تھی کہ مندر کی باقیات مسجد کے نیچے سے برآمد ہوئی ہیں۔ ایک ٹوئٹ سے اس بات کی تردید ہوتی تھی کہ یہ دونوں نامور تاریخ داں بیک وقت مسلم بادشاہوں کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں کیونکہ ان میں کہا گیا تھا کہ بادشاہوں نے مندر منہدم کیا تھا۔
دوسرا ردعمل ممکن ہے کہ ہندو قوم پرستوں کے لئے پریشان کن ہو جس میں فن پاروں کی تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک بڑا حصہ جو بدھ مت کے گروپس کا ہے اپنی آواز اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ جو چیز دریافت کی گئی شیولنگ نہیں ہے، یہ ایک ستون ہے جو بدھ مت کے تمدن سے تعلق رکھتا ہے اور تراشا ہوا پتھر جو دستیاب ہوا اسی قسم کا ہے جو اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں پایا جاتا ہے۔ ایودھیا کے فیصلے کا مقام جس کا تذکرہ کیمیگی کے طور پر کیا گیا ہے درحقیقت کسوٹی کے ستون ہیں جنہیں مسجد کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بہت زیادہ بدھ مت کے ستونوں جیسے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بنارس میں دیکھے گئے ہیں۔

کیا ہمارا قانونی نظام اور یونیسکو تہذیبی ورثہ امبیڈکر کے تاریخ کے بارے میں نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ ایک تاویل یہ ہے کہ برہمنیت نے جوابی ردعمل پیش کیا ہے کہ بدھ مت کے تہذیبی ورثہ کے مقامات بعد ازاں بعض مسلم بادشاہوں نے لوٹ مار کے دوران تباہ کردیئے تھے۔ یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مسلم لٹیروں نے ان کو تباہ کیا تھا جن میں مسلم بادشاہ بھی شامل کئے گئے ہیں۔ تفصیلی مظاہرے جو معقول تاریخ تحریر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ مقدس مقامات کو تباہ کیا گیا تھا جس کا مقصد دولت حاصل کرنا تھا جبکہ اقتدار کے لئے رقابت کا سلسلہ جاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بدھ مت کے مقامات پر حملوں کا آغاز کیا اس سے نظریاتی اور جسمانی طاقت کی سطح پر پہنچ جانے کا اشارہ ملتا ہے۔ مسلم بادشاہ لوٹ مار میں کامیاب رہے۔ انہوں نے بدھ مت کے سابقہ حملوں کو پوشیدہ رکھا ہے جس کی وجوہات یہ تھیں کہ بدھ ازم کا ہندوستان سے صفایا کردیا جائے جہاں یہ مذہب پیدا ہوا تھا۔

بدھ ازم کا تہذیبی تاریخی ورثہ ہندوستان میں ایک قابل قدر خزانہ ہے اور بحیثیت مجموعی پوری دنیا کے لئے بھی قیمتی ہے۔ چنانچہ اگر رام مندر ریاست میں تعمیر کیا جاتا ہے تو اس سے ان واقعات کی یاددہانی ہوگی جو سومناتھ مندر کی تباہی کے وقت پیش آئے تھے۔ اس کے فوری بعد ملک آزاد ہوگیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ حکومت کو مندر تعمیر کرنا چاہئے۔ عظیم ہندو گاندھی نے کہا کہ ہندو معاشرہ اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اپنا مندر تعمیر کرسکے۔ حکومت کو ایسے کاموں میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ ان کے چیلے جدید ہندوستان کے معمار جواہر لال نہرو نے اس بات کی منظوری دی تھی کہ ہندوستان کے اولین صدر راجیندر پرساد اس مندر کا افتتاح کریں بعد ازاں خود نہرو نے تحریر کیا کہ اس کی بجائے صنعتیں قائم کی جانی چاہئے تھیں۔ تالاب تعمیر کئے جانے چاہئے تھے اور یونیورسٹیاں قائم کی جانی چاہئے تھیں۔ انہوں نے ان تمام کو جدید ہندوستان کے مندر قرار دیا۔
موجودہ دور اس کا کتنا برعکس ہے حکومت مندر تعمیر کررہی ہے جبکہ صحت، تعلیم اور میکانزم کی معاشرہ میں دیکھ بھال کرنا ضروری ہے۔ ان تمام کو خانگی شعبہ کے حوالہ کیا جارہا ہے جن کا بڑا مقصد منافع خوری ہے۔ سماجی فلاح و بہبود نہیں