بابری مسجد سے رام مندر تک تاریخی نقطہ نظر

   

رام پنیانی
پانچ اگست 2020ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی تقریب سنگ بنیاد میں نہ صرف شرکت کی بلکہ مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ یعنی بھومی پوجا کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں 5 اگست کا موازنہ 15 اگست سے کردیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ 15 اگست 1947ء کو ہمارے ملک نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ وزیراعظم کے مطابق 15 اگست کو بھارت نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور 5 اگست کو شری رام چندر جی آزاد ہوئے۔ وزیراعظم نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دو قدم آگے برھ کر یہ بھی کہا کہ جس طرح ملک کو آزادی دلانے کے لیے لوگ مہاتما گاندھی کے پیچھے جمع ہوگئے تھے اور پھر ملک کو آزادی دلائی اسی طرح بھگوان رام کو آزاد کروانے کے لیے تمام لوگ متحد ہوئے۔ دوسری طرف تقریب سنگ بنیاد میں موجود آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے منوسمرتی سے چند شلوک کے حوالے دیئے۔
یہ کہنا بالکل غلط بلکہ دروغ گوئی کے سوا کچھ نہیں کہ پچھلی کئی صدیوں سے رام مندر کی جدوجہد کی گئی جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے دعوی کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 19 ویں صدی کے اواخر میں بابری مسجد کے باہر رام چبوترہ کو لے کر کچھ تنازعات پیدا ہوئے تھے لیکن یہ کہنا کہ ہندوئوں نے رام مندر کے لیے صدیوں سے جدوجہد کی بالکل غلط اور حقیقت سے بعید ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رام مندر کا مسئلہ 1980 میں اس وقت منظر عام پر آنا شروع ہوا جب بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے اسے (اس ملک کو) کو وشواہندو پریشد سے لے کر خود تحریک شروع کی۔ وی ایچ پی کی طرح ایل کے اڈوانی نے جنہیں اب مودی نے بری طرح نظرانداز کردیا اپنی رام مندر تحریک میں یہ کہنا شروع کردیا کہ بھگوان رام کی پیدائش اُسی مقام پر ہوئی جہاں بابری مسجد واقع ہے۔ ایسے میں ہم وہاں ایک عظیم الشان وسیع و عریض رام مندر تعمیر کروائیں گے۔ جہاں تک رام مندر کی تحریک کا سوال ہے جب تک وہ وشواہندو پریشد کے ہاتھوں میں تھی اس کے زیادہ چرچے نہیں تھے لیکن اڈوانی نے اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ رام مندر تحریک کو منڈل کمیشن سفارشات پر عمل آوری کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں خاص کر بی جے پی کی پالیسی کے نتیجہ میں ان کے حامیوں کا زبردست ردعمل حاصل ہوا۔ آپ کو بتادیں کہ منڈل کمیشن سفارشات کے تحت او بی سیز (دیگر پسماندہ طبقات) کو 25 فیصد تحفظات فراہم کئے گئے اور بی جے پی نے اس کا بھی پورا فائدہ اٹھایا۔
یہ دعوی کہ اس مقام پر رام مندر رہے یا ان کی جائے پیدائش ہے، ایسی بنیادوں پر کیاگیا جو کسی بھی طرح ثابت نہیں کئے جاسکتے۔ جیساکہ وشواہندو پریشد اور بی جے پی نے دعوی کیا تھا کہ وہاں رام مندر موجود تھا اور بابر نے اسے منہدم کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس دعوی کو اور اس طرح کے نقطہ نظر کو برقرار نہیں رکھا۔ سپریم کورٹ نے اس نظریہ یا نقطہ نظر کو بھی برقرار نہیں رکھا کہ بھگوان رام کی پیدائش عین اسی مقام پر ہوئی تھی جہاں مسجد ہے (تھی) کچھ ماہرین آثار قدیمہ کے دعوے ہیں کہ کچھ ستونوں کی باقیات دیگر نوادرات سے ثابت ہوتا ہے کہ مندر وہاں موجود تھا لیکن ایسے بے شمار ماہر آثار قدیمہ ہیں جو اس بات سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی مندر موجود تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ چند ماہ قبل رام مندر کے لیے زمین مسطح کرنے یا برابر کرنے کے دوران وہاں سے بدھ مت کی عبادت گاہ کے باقیات پائے گئے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے ملک کی آزادی کے لیے متحد جدوجہد سے انہیں روکنے کے لیے اس تنازعہ کا بیج انگریزوں نے بویا تھا کیوں کہ انگریزوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو اپنی خطرناک پالیسی ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کے ذریعہ لڑاتے ہوئے مندر مسجد کا مسئلہ یا تنازعہ پیدا کیا چنانچہ اے ایف بیوریخ AF BVEEVIRIDGE نے ایودھیا میں بابری مسجد پر تبصرہ کرتے ہوئے شکوک و شبہات بلکہ تنازعہ پیدا کرنے والی یہ بات کی کہ ہوسکتا ہے کہ یہاں کوئی مندر تھا جس پر بابری مسجد تعمیر کی گئی ہو (یہ بات ایس گوپال کی انگریزی کتاب ANATOMY OF CONFRONTATION میں بتائی گئی ہے جس کی اشاعت پنگوین جسے ناشر نے عمل میں لائی) رامائن کے بعض ورژن کے مطابق (بھگوان رام کی کہانی کے تقریباً 300 ورژن ہیں : اے کے رامانجم) دسرتھ وارناسی کے راجہ تھے ایودھیا کے نہیں۔ اسی طرح والمیکی کی رامائن میں بھی رام کی جائے پیدائش کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ دوسری جانب گوسوامی تلسی داس جنہوں نے مقبول ترین Ramcharitmanas لکھی ہے اس وقت آس پاس ہی مقیم تھے۔ جب سمجھا جاتا ہے کہ بھگوان رام کا مندر تباہ کیا گیا لیکن وہ بھی اپنی تحریروں میں ایسے کسی واقعہ کا ذکر نہیں کرتے (اگر مندر تباہ کیا جاتا جیسا کہ سنگھ دعوی کرتا ہے تو وہ ضرور رام چرت مانس میں اس کا حوالہ دیتے) اساطیری یا افسانوی مسائل کا تاریخ سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اے کے رامانجم کی کتاب شاندار انداز میں متنوع داستان پیش کرتی ہے یعنی وہ رام جی کی وہ کہانی پیش کرتی ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ جنوب مشرقی اشیاء کے مختلف حصوں میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ بہرحال حالیہ تاریخ میں پہلا واقعہ جو پیش آیا وہ 1949ء میں پیش آیا جب بابری مسجد میں رام کی مورتیوں کو خفیہ طریقہ سے نصب کردیا گیا اور مسجد میں مورتیاں رکھنے کا کام خفیہ طور پر کیا گیا اور رات کی تاریکی میں کیا گیا جس پر اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اترپردیش کے اس وقت کے چیف منسٹر گووند ولبھ پنت کو مسجد میں بٹھائی گئی مورتیاں ہٹانے کی ہدایت دی لیکن ولبھ پنت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ اس وقت کے ضلعی کلکٹر کے کے نائر نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا۔ آپ کو بتادیں کہ کے کے نائیر نے ریٹائرمنٹ کے بعد بی جے پی کے ابتدائی اوتار بھارتیہ جن سنگھ میں شمولیت اختیار کی۔ واضح رہے کہ مسجد پر جو تالا ڈالا گیا وہ 1980 ء کے وسط تک لگارہا یعنی مسجد مقفل رہی اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ ہندو قوم پرستوں کے دبائو میں متنازعہ ڈھانچہ کے دروازے کھولے گئے اور شیلانیاس کیا گیا اور شیلا نیاس اس وقت ہوا جب عہدہ وزارت عظمی پر راجیو گاندھی فائز تھے اور وہاں جو شلانیاس کیا گیا وہ اسی مقام پر نہیں کیا گیا جو اب کیا گیا۔ مسجد میں رام للا کی مورتیوں کو رکھنے کی مجرمانہ کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلے میں درج ہے لیکن 6 ڈسمبر کے بعد فرقہ وارانہ تحریک کے ذریعہ تین لاکھ کارسیوک جمع ہوئے اور دن دھاڑے ایک تاریخی آثار کو منہدم کردیا حالانکہ اُس وقت کے چیف منسٹر اترپردیش کلیان سنگھ نے بابری مسجد کے تحفظ کو یقینی بنانے عدالت میں حلف نامہ بھی داخل کیا لیکن عدالت میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ اور اس میں کی گئی یقین دہانی سے انحراف کیا اور بعد میں فخریہ طور پر دعوی کیا کہ ایودھیا میں جو کچھ ہوا اس پر انہیں خوشی ہے کوئی دکھ نہیں ہے۔ (یعنی کلیان سنگھ شہادت بابری مسجد کو درست قرار دیتے ہوئے فخر کا اظہار کیا) ۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ لائبرین کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی اس میں واضح طور پر شہادت بابری مسجد کے مجرمین اور خاطیوں کے طور پر بی جے پی لیڈروں کے ناموں کا حوالہ دیا گیا اور اس مسئلہ پر عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں جبکہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اومابھارتی کے خلاف مقدمہ زیرالتوا ہے۔ رتھ یاترائوں سے معاشرہ میں فرقہ پرستی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی رتھ یاترائوں اور رام مندر تحریک کے ذریعہ مسلمانوں کو منادر منہدم اور منادر تباہ کرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا جس کے منتیجہ میں ہندوستان کے دو بڑے مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خلیج بڑھ گئی۔ ایک بات ضرور ہے کہ مسلم بادشاہوں اور ہندو راجائوں دونوں نے دولت کے حصول اور سیاسی عداوتوں کے لیے مندروں کو منہدم کیا۔ اس سلسلہ میں کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔
مرہٹہ فوج نے شری رنگا پٹنم میں ایک مندر کو منہدم کردیا تھا جبکہ ٹیپو سلطان نے اس مندر کی دوبارہ تعمیر کروائی، اورنگ زیب نے کاشی میں وشواناتھ مندر منہدم کروائی (لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا متعصب مورخین اس پر جان بوجھ کر روشنی نہیں ڈالتے) دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اورنگ زیب نے بے شمار ہندو مندروں کو عطیات بھی دیئے۔ انہوں نے گولکنڈہ میں ایک مسجد کو شہید کردیا لیکن یہاں مندروں کی تباہی کو صرف مسلم بادشاہوں سے جوڑدیا گیا جس کے اثرات آج کے مسلمانوں پر مرتب ہورہے ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول کس قدر شدت اختیار کرگیا ہے۔