بابری مسجد فیصلہ پر نظر ثانی اپیل

   

نہیں کوئی راہ نما تو کیا ہے خلاف ساری فضا تو کیا
مجھے فکرِ سود و زیاں ہو کیوں تری یاد شاملِ حال ہے
بابری مسجد فیصلہ پر نظر ثانی اپیل
ہندوستان میں جس تیزی کے ساتھ دستور ، قانون ، اخلاق ، جمہوری اقدار کو پامال کیا جارہا ہے اس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہونے کو بے تاب ہیں ۔ ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے کیا مشکلات کھڑی ہوں گی اس پر غور و فکر کرنے والوں نے اپنی اپنی دانش کے مطابق آراء پیش کی ہے ۔ لیکن مستقبل کے حالات کی دھندلی عکاسی کرنے والے آج کے واقعات مسلمانوں کو اس بات کے لیے خبردار کررہے ہیں کہ وہ خود کو تیار کرلیں ۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں ، مذہبی اداروں ، سیاسی پارٹیوں اور قائدین ، علماء کرام نے بابری مسجد کی شہادت اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں بیانات دے کر مسلم معاشرہ کے اندر ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔ ایسے میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی ذمہ داری کے حصہ کے طور پر بابری مسجد اراضی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر درخواست نظر ثانی داخل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مسلمانوں کے بڑے نمائندہ اداروں کی جانب سے اس طرح کی قانونی کوششیں ہونی چاہئے تاکہ ہندوستان کے قانون ، انصاف سے مایوس ہوئے بغیر اپنے حق کے لیے میدان عمل میں سرگرم رہیں ۔ ملک کی موجودہ قیادت اور اس کا فرقہ پرست ٹولہ انتہا پسندی اور ناپاک مہم جوئی سے اپنے ہی ملک کے دستور کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے قانون و انصاف کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس طاقت کے سامنے اگر مسلمانوں نے مایوسی اور بے بسی کا مظاہرہ کیا تو ان طاقتوں کے حوصلے بڑھتے جائیں گے ۔ بابری مسجد اراضی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی نا انصافی اب قانون کے در و دیوار سے ٹکرا کر باز گشت پیدا کردی ہے ۔ ہندوستان کے ہر ذی شعور شہریوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کئی خامیوں کی نشاندہی کرنا شروع کردیا گویا ابنائے وطن میں موجود سیکولر ذہن کے عوام اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی اسے شہید کرنے والوں کو حوالے کرنے کا فیصلہ کر کے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے زندہ چھوڑ دیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا سپریم کورٹ اپنے ہی فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے لیے داخل کی جانے والی درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرے گا یا مسترد کردے گا ۔ اب تک یہ ہوتا آرہا ہے کہ سپریم کورٹ میں داخل کی گئی 99 فیصد نظر ثانی درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے داخل کی جانے والی درخواست نظر ثانی کو بھی سپریم کورٹ مسترد کردے ۔ لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہونا چاہئے ۔ اس کے بعد کی قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہوگی ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس کی کوششوں میں کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان کا ہر مسلم شہری اس کے حق میں کھڑا ہوجائے ۔ مسلم نمائندہ اداروں ، شخصیتوں اور تنظیموں کو ایک ہی آواز میں حصول انصاف کے لیے کوشاں مسلم پرسنل لا بورڈ کا ساتھ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ ورنہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دستور ، قانون ، جمہوری حقوق کی حیثیت ختم کر کے انہیں کمزور کردینے کا منصوبہ رکھنے والے کامیاب ہوں گے ۔ مسلمانوں کے لیے پیدا کئے جانے والے ہر بڑے بحران میں ایک نیا بحران شہریت ترمیمی بل بھی ہے ۔ بلا شبہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایقان ہے کہ ان کے لیے کھڑا کیا جانے والا ہر بڑا بحران ایک عظیم کامیابی پر ختم ہوتاہے ۔ بشرطیکہ مسلمان خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط ہونے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرتے ہوئے حصول انصاف کی جدوجہد کرتے رہیں ۔ سپریم کورٹ کو اپنے منصوبوں کو بروے کار لانے کے لیے استعمال کرنے والی طاقتوں کو صرف اسی وقت شکست دی جاسکتی ہے جب سیاسی فیصلہ سازی میں مسلمان اہم رول ادا کریں۔ ایک ٹولہ جس طریقے سے سیاسی طاقت حاصل کر کے آج ملک کے قانون ، عدلیہ اور انصاف پر غالب آیا ہے یہ ایک عارضی مرحلہ ہے ۔ اس کا جواب تیار کرنے میں مسلمانوں کو کوتاہی ، لاپرواہی نہیں کرنی چاہئے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کا لفظ بہ لفظ جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کو جرم قرار دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ کھدائی میں مندر ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں اور نہ ہی مسجد کے اصل مقام پر رام جنم بھومی کے کوئی ثبوت پائے جاتے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کا اس بات پر بھی یقین ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر 1528 ء میں ہوئی تھی اور اس کے بعد اس میں 1949 تک نماز ہوتی رہی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں درج یہ تمام حقائق مسلمانوں کے لیے حصول انصاف کی راہوں کو مضبوط بناتے ہیں ۔ تاہم سپریم کورٹ نے مسجد کی اراضی کو اسے شہید کرنے والوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے سراسر سیاسی سازش کا شکار ہونے بنادیا گیا ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو موجودہ برسر اقتدار طاقت کی مجرمانہ حرکتوں سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنا دفاع کرنے کے لیے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔۔