بابری مسجد پر فیصلہ مسترد، عالمی عدالت سے فیصلہ کو رجوع کرنے پر زور

   

فیصلہ قانون کے موافق نہیں، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ذمہ داری میں
مزید اضافہ، مجیداللہ خان فرحت
حیدرآباد۔9نومبر(سیاست نیوز) مسلم پرسنل لاء بورڈ جو اب تک بابری مسجد کے مقدمہ کی پیروی کرتاآیاہے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس کی ذمہ داری میں اور اضافہ ہوچکا ہے۔جناب مجید اللہ خان فرحت صدر مجلس بچاؤ تحریک نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے یہ بات کہی۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع ہوں اور عالمی قوانین کے مطابق مسئلہ کو پیش کیا جائے کیونکہ اگر اس مسئلہ کو یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ملک کی دیگر کئی ہزار مساجد جو کہ سنگھ پریوار کی فہرست میں شامل ہیں ان کو بھی نشانہ بنایاجاسکتا ہے ۔ انہوں نے جسٹس وینکٹ چلیا 1994کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کھدوائی میں نکلنے والے شواہد کی بنیاد پر کسی ملکیت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور یہی بات وہ کئی برسوں سے کہتے آرہے ہیں اور آج آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی کھدوائی کے شواہد کا تذکرہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ مجید اللہ خان فرحت نے بابری مسجد کے متعلق مقدمہ کے فیصلہ کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قانون کے موافق نہیں ہے۔انہو ںنے واضح کیا کہ وہ ہر اس قانون کی اتباع کیلئے تیار ہیں جو انصاف کرتا ہے۔ انہوں نے اس فیصلہ کے متعلق کہا کہ اب جبکہ فیصلہ آچکا ہے تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ سنگھ پریوار کے منصوبوں سے ہندستان کا ہر مسلمان واقف ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر عالمی عدالت میں اس مقدمہ کو نہیں لے جایا جاتا ہے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس کے لئے مورد الزام ہوگا۔ انہو ںنے بتایا کہ فیصلہ کو مسترد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سپریم کو رٹ کو چیالنج کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انصاف کیلئے جدوجہد کے دروازے اب بھی بند نہیں ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس سلسلہ میںاپنی کاوشوں کو جاری رکھے گا۔فرحت خان نے کہا کہ اللہ کے گھر کا معاملہ ہے اسے اس طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اسی لئے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مشورہ دے کہ وہ اس معاملہ میں سنجیدہ اقدامات کاآغاز کرے کیونکہ جو فیصلہ دیا گیا ہے اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اس بات سے سب واقف ہیں اور جب یہ حقیقت ہے تو اسے عالمی عدالت میں چیالنج کیاجانا چاہئے ۔