با بری مسجد فیصلہ پر غیر مسلم دانشوروں کا ردعمل اور ہماری ذمہ داری

   

بابر ی مسجد کا قضیہ عرصہء دراز سے چل رہا تھا بالآخر سپریم کورٹ کی۵رکنی آئینی بنچ نے ۵۰۰سالہ قدیم بابری مسجد تنازعہ پر ۹نومبر۲۰۱۹ء کوتاریخی فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ جگہ پر ایک ٹرسٹ کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیدی اور متبادل کے طور پر اسی شہر میں مسجد کی تعمیر کیلئے۵۰۰ گز اراضی مسلمانوں کے حوالے کرنے کی مرکز کو ہدایت دی ہے ۔آئینی بنچ کا فیصلہ تاریخی حقائق کی روشنی میں ہے یا فرضی آستھا و عقیدہ کی بنیاد پر اس پر کئی تجزیہ نگاروں کی آراء ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سب تک پہنچ رہی ہیں۔مسلمانوں کیلئے خوش آئند بات یہ ہے کہ ان تجزیہ نگاروں میں بہت سے ہمارے غیر مسلم جمہوریت پسندایسے برادران وطن ہیں جو ہندوستان کے سیکولر کردار کی حفاظت کیلئے فکرمند ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے فیصلے پر اپنی رائے کا کھلے عام اظہار کیا ہے۔اس قسم کی رائے کا اظہار کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے بعض سابق ججس ، ایڈوکیٹس اور کئی ایک صحافی و دانشوران ملک ہیںجنہوں نے اپنے تجزیات میں نہ صرف جمہوری اقدار کی نمائندگی کی ہے بلکہ غمزدہ مسلمانوں کی بھرپور ترجمانی بھی کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے ملک کی سیکولربنیادیںکمزور ہوںگی اور ہم ملک کے آئین کا تحفظ نہیں کرسکیں گے ۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر سابق جسٹس اے کے گنگولی نے کہاہے کہ ’’ اس معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ غلط ہوا ہے وہ اس فیصلے سے پریشان ہیں‘ ‘ کوئی بھی کہے گا کہ ایودھیا میں مسجد گرائی گئی تھی یہ سب کو معلوم ہے حکومت اس مسجد کو بچانا چاہتی تھی ۔ اس معاملے میں عدالت میں اب بھی کیس چل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا آئین جب وجود میں آیا تو یہاں نماز پڑھی جارہی تھی ۔ ایک ایسی جگہ جہاںمسجد تھی اور جہاں نماز پڑھی جارہی تھی اس جگہ کو سپریم کورٹ نے مندر کے لئے دینے کا فیصلہ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے فیصلہ کو سمجھنے میں مجھے تھوڑی دقت ہورہی ہے۔یہ فیصلہ میری سمجھ سے بالا تر ہے ‘ مسجد تو تقریباً ۵۰۰ سال سے موجود تھی اور عدالت نے یہ بھی نہیں کہا کہ مسجد‘ مندر توڑ کر بنائی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے حقوق کی حفاظت کرے۔ اس میں اقلیتی طبقہ بھی شامل ہے اورفاضل جج کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ملک کے لوگ کیا دیکھیں گے؟ یہاں ایک مسجد تھی جسے ۱۹۹۲میں توڑ دیا گیا۔ اس زمین پر سپریم کورٹ ایک مندر بنانے کی اجازت دے رہا ہے ۔ کن ثبوتوں کی بنیادپر ؟ یااس آستھا کی بنیاد پر دے رہا ہے کہ یہ زمین رام للا سے جڑی ہوئی تھی لیکن کیا آستھا کی بنیاد پر ایسا کیاجاسکتا ہے ؟ اور یہ کہا کہ جو ثبوت ملے ہیں اور جو فیصلہ آیا ہے اس سے میں اپنے کو مطمئن نہیں کرپارہا ہوں۔یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی سمجھ میں کچھ خامیاں ہوں لیکن ان کے خیال سے اس فیصلے میں بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیئے گئے ہیں ۔

(انقلاب نئی دہلی ۱۱،نومبر) سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل محترم کلیسورم راج صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا ہے کہ بھارت اکثریت پسندی کی اور(سمت )بڑھ رہا ہے جوآئین کے دفعات سے متفق نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بھارت انتہائی دائیں بازو کے نظام کی اور (سمت)بڑھ رہا ہے یہ فیصلہ آئین کے اصولوں کیلئے جھٹکا ہے۔ البتہ رائے دی ہے کہ یہ اوپری عدالت(سپریم کورٹ ) کا فیصلہ ہے اور سبھی کو قبول کرنا چاہئے اور کسی کو بھی امن کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔پھرآگے کہا ہے کہ سب سے متضاد (بات) یہ ہے کہ کورٹ نے بابری مسجد توڑنے کی کارروائی کو غیر قانونی ماناہے اور پھر اسی کو عزت دینے کی کوشش کی ہے یہ بھی کہ پانچوں ججوں کی بنچ نے اتفاق رائے سے بابری مسجد مسمار کرنے کو غیر قانونی مانا اور پھر وہاں مندر بنانے کے حق میں فیصلہ بھی دیا ہے۔کسی بھی جمہوریت میں یہ بنیادی چیز ہوتی ہے کہ ہجوم کے تشدد اور کسی بھی طرح کے فسادیوں کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ملے ۔ سب سے بڑا نقصان قانون کے راج کا ہے یہ فیصلہ آئین کے معیارات کے حساب سے متضاد ہے ۔ کڑکا کومباکورٹ سے سینئر ایڈکیٹ سدھیر سمراٹھ جی جو بہار کے لیڈر بھی ہیںاس فیصلے سے متعلق سوال کے جواب میں جسٹس ورما کے حوالے سے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کا آدھار کرتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اچوک(غلطی سے مبرا) نہیں ہے ۔ دیش آستھا سےنہیں بلکہ دستور سے چلتا ہے ۔میرا ماننا ہے کہ اس پر دوبارہ وچار ہونی چاہئے اور صحیح فیصلہ تک پہنچنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲کو مسجد نہیں ٹوٹتی تو عدالت کیا فیصلہ دیتی؟جناب راجیو دھون جی صاحب ملک کے جمہوریت پسند تمام شہریوں کے شکریہ کے مستحق ہیں اور مسلمان تو ان کے شکرگذار ہونے کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے ان کے جمہوریت پسندانہ جذبہ کو سلام کرتے ہیں اور دعائیں دے رہے ہیں، انہوں نے ٹھوس دلائل کے ساتھ سپریم کورٹ میں اس پر بحث کی ہے اور مقدمہ کی پیروی کا حق ادا کردیا ہے ۔قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اس پر کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا مسلسل کئی دنوں تک صرف یہی مقدمہ لڑتے رہے اس مقدمہ کی پیروی کو کمال درجہ تک پہنچانے کیلئے اپنے تمام اوقات وقف کردیئے‘ ا س دوران کسی اور مقدمہ کی پیروی نہیں کی۔

سینئر صحافی (این ڈی ٹی وی)رویش کمار اور ان جیسے کئی ایک جمہوریت پسند صحافی ہیں جو ملک کے سیکولر کردار کے تحفظ کیلئے اپنا قلم وقف کئے ہوئے ہیں ۔ بابری مسجد رام جنم بھومی پر بھی ان کے تجزیات سوشیل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیںاس سلسلے میں شرپسندوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی بھی وہ پرواہ نہیں کرتے ‘ایک اور صحافی ابھے کمار جی ہیں انہوں نے اپنے دل کے درد و غم کو الفاظ میں سمویا ہے ۔ ایک نفسیاتی سوال اٹھایا ہے ’’ اگر۶ ؍ دسمبر ۱۹۹۲ کو ایودھیا میں بابری مسجد کے بجائے رام مندر کو منہدم کردیاگیا ہوتا؟کیا آپ کو لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسا ہی ہوتا ؟کیا آپ کو لگتا ہے کہ منہدم ڈھانچہ اسی فریق کو دے دیا جاتا جو اس کو زمین پر گرانے یا اس کے انہدام میں معاون تھا؟اس طرح کے بڑے فکر انگیز سوالات اٹھاتے ہوئے اخیر میں کہا ہے ۔ باوجود یہ کہ ہندوکمیونٹی کی اکثریت سپریم کورٹ کےفیصلہ پر جشن منارہی ہے مگر میرا ضمیر جشن منانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے ۔ میرا ضمیر مجھے اس ظلم کو فراموش کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے جسے ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ کو دن کے اُجالے میں انجام دیا گیا۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ اس دن ہزاروں ہندو جنونی۔ اقلیتوں کے صدیوں پرانے مذہبی مقام کو مسمار کرنے کیلئے موبلائزکئے گئے تھے؟ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ایک ایسی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کے نام پر بے گناہ معصوم لوگ زخمی کئے گئے ۔ مارے گئے اور بے گھر کئے گئے کہ جس (جگہ)کے بارے میں تاریخی شواہد موجود ہی نہیں کہ وہاں کبھی مندر بھی تھا۔ مجھے ایک بار پھر سے کہنے دیجئے میرا ضمیر ا س بات کی اجازت نہیں دے رہا کہ میں کسی ایسے فیصلے پر جشن منائوں جسے اکثریتی طبقہ کے جذبات کو مدنظر رکھ کے دیا گیا ہو۔…..اس بات سے قطع نظر کہ مین اسٹریم میڈیا اور حکمراں طبقہ کیا کہتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ۶ ؍دسمبر ہندوستانی تاریخ کا سب سے تاریک دن ہے ا س دن صرف ایک مسجد کا گنبد نہیں گرایا گیا تھا بلکہ سیکولرازم اور جمہوریت کے ستون بھی توڑ دیئے گئے تھے ۔…..مجھے ڈر ہے کہ آج کے فیصلے سے فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے کس حد تک بلندہوجائیں گےکہ وہ قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے لگیں گے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستانی ریاست کا رویہ اقلیتوں کے خلاف مزید جارحانہ اور دشمنی کا شکار ہوجائیگا ‘‘ ایسے تمام جمہوریت پسند بے باک برادران وطن قابل قدر ہیں‘ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم برادری کو ان جیسے اعلیٰ کردار برادران وطن سے حوصلہ ملتا ہے مسلمانوں کو ان سب کے ساتھ جڑ کر ملک بچائو تحریک چلانا چاہئے اور ملک کی آزادی میں اک جٹ ہوکرجیسے انگریزوں کے خلاف مہم چلائی تھی ویسے ہی فسطائی اور ملک دشمن طاقتوں کےخلاف دستور و قانون کے چوکٹھے میں رہتے ہوئےآگے آنا چاہئے ۔ غیر مسلم جمہوریت پسند مذہبی رہنمائوں سادھووں اور سنتوں میں جناب مہاراج اگنیش جی جیسے کئی ایک ہمارے محترم بھائی ہیں جو حق کی آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد ‘ رام جنم بھومی تنازعہ پر اپنے جمہوریت پسندانہ نقطہ نظر کا اظہاربھی کیا ہے ۔الغرض ایک معتد بہ تعداد غیر مسلم برادران وطن کی ہے جودستور کی روشنی میں ملک کے جمہوریت پسندانہ کردار کی حفاظت کیلئے بے خوف و خطر لکھتے اور بولتے ہیں ۔ اس طرح کے جمہوریت پسند دانشوران ملک‘ صحافیوں اور عام برادران وطن کے تجزیات کو جمع کیا جائے تو ایک مستقل ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں امت مسلمہ کو اپنا جائز ہ لینا چاہئے‘بعض مسلم زعماء وعمائدین ا ور دانشوران ایسے ہیںجو اس فیصلے کانہ صرف خیرمقدم کررہے ہیںبلکہ مسجد کی زمین کو مندر کی تعمیر کیلئے راضی خوشی دینے کی تائید میں ہیں۔جب کہ مساجداللہ سبحانہ کی ملک ہوتی ہیں ارشادباری تعالیٰ ہے’’ مسجدیں اللہ عز و جل کیلئے ہیں اس لئے ان میں اللہ کے ساتھ کسی اورکی عبادت نہ کرو‘‘ (سورۃ الجن۔۱۸) چونکہ مساجد خاص اللہ اور اس کی عبادت کیلئے ہیں ۔ لا نھا خالصۃ للہ و لعبادتہ‘( مدارک التنزیل ۳،۵۵۲)