بتلادو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے

,

   

دنیا بھر میں بدنامی … بیرونی دباؤ پر کارروائی
مسلمان ناموس رسالت پر متحد ہوں

رشیدالدین
’’باخدا دیوانہ باشد۔بامحمد ہوشیار‘‘ اسلام اور شریعت میں ناموس رسالت کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیا ہے ۔ ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک عظمت رسالت اور ناموس رسالت کیلئے جانثاری کا جذبہ نہ ہو۔ آج صورتحال یہ ہے کہ حب رسول کے بلند بانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں اور جان و مال ، آل اولاد کے فدا کرنے کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن یہ دعوے اور نعرے حلق کے نیچے نہیں اترتے۔ جس دل میں ایمان ہو ، وہاں بزدلی اور مصلحت کیلئے جگہ نہیں ہوتی۔ ایمان اور بزدلی کبھی یکجا نہیں ہوسکتے۔ ناموس رسالت پر جانثاری کی مثالیں تو صحابہ کے واقعات میں ملتی ہیں۔ اطاعت کا جذبہ اور صدق دل سے عمل ہو تو جذبہ جانثاری پیدا ہوتا ہے۔ عمل کے بغیر حب رسول کے دعوے محض دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک مسلمان جب ایک کافر کے حق میں حضور اکرمؐ کے فیصلہ کے خلاف حضرت عمرؓ سے رجوع ہوا تو ناموس رسالت میں گستاخی پر سر تن سے جدا کردیا گیا کیونکہ اس شخص نے حضور اکرمؐ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا۔ ہم بھی حضور اقدسؐ سے محبت اور سب کچھ نچھاور کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جب وقت امتحان کا آجائے تو قدم پیچھے ہٹالیتے ہیں۔ ملک میں نفرت کے سوداگروں نے تمام حدود کو پار کرلیا ہے ۔ حکومت کی سرپرستی میں اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا روز کا معمول بن چکا ہے لیکن ان کی جرأت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی مذموم حرکت کی گئی ۔ دراصل یہ حرکت مسلمانوں کے ایمانی جذبہ اور جرأت کا امتحان تھا لیکن افسوس کہ ہندوستانی مسلمان گستاخانہ رسولؐ کے خلاف احتجاج کے معاملہ میں اس قدر متحرک نہیں ہوئے جتنا ایمان کا تقاضہ ہے۔ ہم میں یہ احساس باقی نہیں رہا کہ روز قیامت کس منہ سے محسن انسانیت کا سامنا کریں گے ۔ حضور اکرمؐ کے دست مبارک سے جام کوثر لینے کی تمنا اور آرزو تو ہے لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کریں کہ جب میری شان میں گستاخی کی گئی تو تم نے کیا قدم اٹھایا۔ یہ سوال صرف عام مسلمانوں سے نہیں بلکہ قیادت کے دعویدار مذہبی ، سیاسی اور سماجی شخصیتوں سے بھی کیا جائے گا۔ کوئی ہمیں گالی دیں اور چار لوگوں کے درمیان بے عزتی کردیں تو ہم آپے سے باہر ہوکر مارنے مرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ جب اپنی ذات کا معاملہ ہو تو غیرت جاگ اٹھتی ہے لیکن سرور کونین کا معاملہ آجائے تو خون سفید ہوجاتا ہے اور ڈر و خوف یا پھر مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے برائی کو ہاتھ اور زبان سے روکنے کا حکم دیا ہے اور دل میں برا جاننے کو ایمان کا آخری درجہ قرار دیا۔ ہندوستانی مسلمان اور ان کی قیادت ایمان کے آخری درجہ میں ہیں۔ بی جے پی ترجمان نپور شرما اور نوین جندال نے شان رسالت میں گستاخی کی جرأت کی اور ہندوستانی مسلمانوں نے صرف رسمی احتجاجی بیانات پر اکتفا کیا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر مسلمانوں کی آستھا کی کوئی اہمیت نہیں۔ 10 دن یوں ہی گزر گئے اور پھر اچانک بی جے پی نے نپور شرما اور جندال کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پارٹی سے خارج کردیا۔ نپور شرما نے گودی میڈیا کے شو کے دوران پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کا استعمال کیا جبکہ نوین جندال نے شرما کے خیالات کو سوشیل میڈیا پر پیش کیا تھا۔ بی جے پی قائدین کی گستاخیوں پر عرب اور اسلامی ممالک میں برہمی کا طوفان امنڈ پڑا اور ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوگئی۔ 13 سے زائد مسلم ممالک نے ہندوستانی حکومت سے احتجاج درج کرایا اور کئی ممالک نے ہندوستانی سفیروں کو طلب کرتے ہوئے احتجاجی نوٹ حوالے کیا۔ عرب اور اسلامی دنیا کی حمیت اور غیرت کو دیکھ کر مودی حکومت کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ تیل کی فروخت اور مصنوعات کی برآمدات سے ہندوستان کو حاصل ہونے والا بیرونی زر مبادلہ خطرہ میں پڑگیا۔ برآمدات کی منسوخی سے امبانی اور اڈانی کی کمپنیوں کو زیادہ نقصان کا اندیشہ تھا، لہذا بی جے پی نے ترجمانوں کے خلاف فوری کارروائی کی۔ اگر ہندوستان ہٹ دھرمی کرتا تو خلیج میں لاکھوں ہندوستانیوں کی ملازمت خطرہ میں پڑسکتی تھی۔ مسلمان چونکہ طبیعت میں سادہ لوح واقع ہوئے ہیں۔ اسی طرح نریندر مودی کی اصلیت سے ناواقف کئی عرب ممالک نے مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز سے نوازا۔ عرب اور مسلم دنیا پر بی جے پی کی حقیقت آشکار ہونے لگی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ 8 برسوں میں مودی حکومت کو کسی بیرونی دباؤ اور وہ بھی مسلم ممالک کے آگے جھکنا پڑا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی آواز نقار خانہ میں طوطی کی آواز بن گئی اور ہمیشہ کی طرح سنی ان سنی کردی گئی لیکن عرب دنیا میں ہندوستانی پراڈکٹس کے بائیکاٹ سے معاشی نقصان کا اندیشہ ہوا تو کارروائی کرنی پڑی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ بی جے پی کو معاشی نقصان کے خوف نے اس بات کیلئے مجبور کیا کہ متنازعہ بیانات کے عادی قائدین کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بیانات سے گریز کی ہدایت دی گئی۔ کہاں گئی ہندوستان کی آزاد خارجہ پالیسی ؟ کہاں گیا 56 انچ کا سینہ ؟ اقوام متحدہ ، امریکہ اور کسی ایک ملک نے جب کبھی مذہبی آزادی نفرت اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں پر تشویش کا اظہار کیا تو ہندوستان نے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے کی صلاح دے ڈالی۔ پیغمبر اسلامؐ کے معاملہ میں مسلم ممالک کے عوام کی برہمی نے حکمرانوں کو ہندوستان سے احتجاج درج کرانے پر مجبور کیا ہے۔ نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو کو اس وقت یقیناً شرمندگی کا احساس ہوا ہوگا ، جب وہ قطر کے دورہ پر جارہے تھے۔ ابھی ان کا طیارہ پرواز میں تھا کہ نائب امیر قطر کے عشائیہ کی منسوخی کی اطلاع دی گئی۔ وینکیا نائیڈو کو محسوس ہوا ہوگا کہ نفرت کے پرچارکوں نے ملک کی کیا حالت بنادی ہے۔ عوامی ناراضگی کے سبب نائب امیر قطر کو عشائیہ کا پروگرام منسوخ کرتے ہوئے پیام دینا پڑا کہ شان رسالتؐ کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا بھر میں ملک کی بدنامی اور عرب و مسلم دنیا کے احتجاج کے بعد بی جے پی نے اپنے ترجمانوں کے خلاف کارروائی کی لیکن معطلی کو کارروائی نہیں کہا جاسکتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں قائدین کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے جیل بھیج دیا جائے۔ بی جے پی اور مرکزی حکومت کو مسلمانوں سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ وزیراعظم کے خلاف کوئی بیان دے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی آستھا اور ان کے مذہبی جذبات کا کوئی احترام نہیں ہے۔ اب جبکہ عرب دنیا کے دباؤ کو قبول کرنے کے بعد سنگھ پریوار کی جانب سے حکومت پر تنقیدوں کا آغاز ہوگیا تو 30 سے زائد مختلف مذاہب کے قائدین کے خلاف اشتعال انگیز بیانات پر مقدمات درج کئے گئے۔ یہ کارروائی دراصل توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے تاکہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو مطمئن کیا جائے کہ حکومت نے مسلم قائدین کے خلاف بھی کارروائی کی ہے ۔ حکومت سے سوال کرنے اور تنقید کرنے والے صحافیوں ، دانشور اور جہد کاروں پر بھی مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمہ میں جرم کی تاریخ اور جرم کی تفصیلات درج نہیں ہے۔ جس وقت جرم ہوا مقدمہ بھی اسی وقت ہونا چاہئے تھا۔ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ اور دنیا بھر میں بے عزتی سے ابھرنے کیلئے دہلی میں مقدمات درج کئے گئے ۔ دنیا کو یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت اشتعال انگیزی کے معاملہ میں غیر جانبدار ہے۔ نپور شرما اور جندال کے مسئلہ سے توجہ ہٹانے کیلئے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ مرکز کے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا تیقن دیا تھا۔ جب یہ معاملہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ عوام تک پہنچا تو سنگھ پریوار نے اجیت دوول کو نشانہ بنایا جس کے بعد ایرانی حکام نے اپنے ٹوئیٹ کو واپس لے لیا۔ جمعہ کے موقع پر ہندوستان کے کئی شہروں میں مسلمانوں نے گستاخانہ رسول کے خلاف مظاہرے کئے اور یہ تمام مظاہرے کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی سرپرستی کے بغیر مسلمانوں نے اپنے جذبہ اسلامی کے تحت کیا ہے۔ کانپور میں جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو اسے فساد کی شکل دی گئی اور احتجاجیوں کے خلاف نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے ۔ حالانکہ صورتحال بگاڑنے کیلئے بی جے پی قائدین ذمہ دار تھے۔ ملک میں مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادتوں نے گستاخان رسول کے خلاف کارروائی پر حکومت کو مجبور کرنے کیلئے مساعی نہیں کی۔ اب وقت آچکا ہے کہ مسلمان ناموس رسالت کے مسئلہ پر نئی قیادت تیار کریں۔ اگر بے حسی برقرار رہی تو جس طرح شریعت میں مداخلت اور پھر دستوری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے کوئی طاقت روک نہیں پائے گی۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہے۔ ملک میں پاکستانی طارق فتح اور بنگلہ دیش کی ملعون تسلیمہ نسرین کو پناہ دی گئی اور ان کے ذریعہ گودی میڈیا پر وقتاً فوقتاً اسلام کے خلاف بیانات دلائے جاتے ہیں۔ نپور شرما اور نوین جندال کی جانب سے گستاخی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار قائدین کی ایک طویل فہرست ہے جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ اس معاملہ میں ملعون وسیم رضوی کی شکل میں سنگھ پریوار کو ایک نیا ہتھیار مل چکا ہے۔ صبیح رحمانی نے گستاخوں کیلئے کچھ یہ پیام دیا ہے ؎
بتلادو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے