بحران سے تباہی تک

   

پی چدمبرم
آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے ایک بہت بڑا ایونٹ بعض ریاستوں کی جانب سے خوشی خوشی، چند ریاستوں کی جانب سے ہچکچاہٹ کے ساتھ اور کچھ ریاستوں کی جانب سے بناء خوشی و ہچکچاہٹ کے شروع کیا جائے گا۔ یہ ایونٹ یا پروگرام دراصل ملک بھر میں 18-44 سال عمر کے حامل گروپ سے تعلق رکھنے والے شہریوںکو ٹیکہ دینے کا پروگرام ہے جو کل سے شروع ہوچکا ہے لیکن دہلی جیسی ریاست کی حکومت عوام کو مشورہ دے رہی ہیکہ وہ قطاروں میں نہ ٹھہریں ٹیکہ اندازی مراکز کو نہ آئیں کیونکہ اس کے یہاں فی الوقت ٹیکوں کی قلت ہے۔ ہاں میں نے آپ سے دو بڑے ایونٹس کی بات کی تھی۔ ایک ٹیکہ اندازی مہم کا آغاز اور دوسرے ووٹوں کی گنتی کا پروگرام ۔ 4 ریاستوں اور ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ پڈوچیری اسمبلی انتخابات کی رائے شماری آج ہی 8 بجے سے شروع ہوگی۔ (یہ سطور پڑھنے تک ووٹوں کی گنتی کا آغاز ہوچکا ہوگا) ان دونوں ایونٹس کے نتائج جانے بناء میں نے یہ مضمون تحریر کیا ہے۔ ویکسین کے بارے لوگ اور ریاستیں جس طرح ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں اس کا اندازہ سب کو ہوچکا ہے۔ لوگ اگرچہ ٹیکہ اندازی مراکز پر قطاریں لگائے ہوئے دیکھے جارہے ہیں لیکن ان لوگوں کو ٹیکوں کی قلت کے باعث واپس بھی ہونا پڑ رہا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے راقم الحروف یہ بتانا ضروری سمجھتا ہیکہ 2 اپریل 2021 کو ہمارے ملک میں جملہ 42,65,157 افراد کو ٹیکے دیئے گئے لیکن کیا وجہ ہیکہ ہم اب ٹیکے دینے کے معاملہ میں مذکورہ اعداد کے قریب بھی نہیں پہنچ پا رہے ہیں اورٹیکہ اندازی کی یومیہ شرح بہت کم ہے اس کا ثبوت یہ ہیکہ ماہ اپریل میں ٹیکہ اندازی کی شرح گرکر یومیہ 29 لاکھ ہوگئی ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ اسپتالوں کو ٹیکوں کی غیر موثر سربراہی ہے۔ دوسری وجہ ’’لاک ڈاون کے دنوں اور گھنٹوں میں کی گئی توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ اگر اسی شرح پر ٹیکہ اندازی کا سلسلہ جاری رہے تو مابقی 70 کروڑ بالغوں کو ٹیکے دینے کے لئے 240 یوم درکار ہوں گے۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ ٹیکہ اندازی مہم ہو یا پھر ادویات و آکسیجن کی سربراہی کا معاملہ کسی میں بھی فنڈز کی قلت نہیں ہونی چاہئے۔ ہاں !! ہمارے ملک میں تیار کردہ ٹیکوں کی قیمتوں کے بارے میں مختلف رائے منظر عام پر آرہی ہے۔ اگر ایک ٹیکہ
(Dose)
کی قیمت اوسطاً 250 روپے مان لی جائے تو 70 کروڑ بالغوں کو ٹیکے کے دو Dose دینے پر 35000 کروڑ روپے کے مصارف آئیں گے اور اہم بات یہ ہیکہ اتنی ہی رقم بجٹ میں مختص کی گئی۔ یہاں ایک بات لکھنا بہت ضروری ہیکہ ٹیکہ اندازی مہم میں آنے والی دیگر رکاوٹوں کو بھی یکم مئی تک دور کرلینا چاہئے تاہم جلد سے جلد ٹیکے کی نئی قیمتوں کے بارے میں گفت و شنید نہیں ہوتی ہے تو ٹیکہ بنانے والی دونوں ہندوستانی کمپنیوں نے جن پانچ قیمتوں کا اعلان کیا ہے ، یہ ٹیکہ اندازی مہم میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔

ویکسین کی قلت کیوں؟
ٹیکوں کی قلت ہنوز ایک مسئلہ ہے اور اس کیلئے مکمل طور پر مرکزی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے جو سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا اور بھارت بائیوٹیک کے سواء ٹیکہ تیار کرنے والی دوسری کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا ہے۔ اس نے سوائے بھارت بائیوٹیک کی کوویکسین اور سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے کووی شیلڈ کے دوسرے ویکسینس یا ٹیکوں کا آرڈر بھی نہیں دیا۔ حکومت نے ٹیکوں کی تیاری کی گنجائش میں اضافہ اور ٹیکہ تیار کرنے والی دونوں ہندوستانی کمپنیوں کو ٹیکوں کی پیداوار بڑھانے فنڈز کی پیشکش کے معاملے میں بھی پہل نہیں کی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مذکورہ نکات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ بھارت بائیوٹیک اور سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے تیار کردہ ٹیکوں کی یکساں قیمت کیلئے بات چیت کرے اور لازمی لائسنسنگ کے نفاذ سے متعلق اپنے ارادہ کا اشارہ دیتے ہوئے مذکورہ دونوں کمپنیوں کو ٹیکوں کی ایک ہی قیمت کا تعین کرنے پر زور دے۔ اس کے ساتھ ہی مرکز اور ریاستوں کے مابین ذمہ داریوں اور قیمتوں کے حصہ کے بارے میں مرکز اور ریاستوں سے مشاورت کرے۔ بہرحال مرکزی حکومت کی نااہلی کے باعث ہی ہندوستان جسے ’’عالمی فارمیسی‘‘ کہا جاتا رہا ہے اب اپنا یہ مقام و مرتبہ متاثر کرچکا ہے۔ کل تک دنیا ، ہندوستان کو ’’عالمی فارمیسی‘‘ کہا کرتی تھی لیکن آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم دوسرے ملکوں اور ٹیکہ ساز کمپنیوں سے ٹیکے سربراہ کرنے کی درخواستیں کررہے ہیں جبکہ ان ٹیکہ ساز کمپنیوں کے پاس ہندوستان کو سربراہ کرنے کیلئے ٹیکوں کی ایک محدود مقدار پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب چین اپنے تیار کردہ
Sinopharms
اور دوسرے ٹیکے فراہم کرنے کی پیشکش کررہا ہے۔ اگر ہم اس کی پیشکش قبول کرتے ہیں تو یہ ہماری تضحیک ہوگی۔ یاد رکھئے! مرکزی حکومت نے ڈاکٹر ریڈیز لیاب کو روکے رکھا، اسے سبز جھنڈی دکھانے سے گریز کیا۔ یہ لیاب روسی ساختہ ٹیکہ اسپیوٹنک V کی آزمائش شروع کرنے کیلئے تیار تھا۔ آپ ذرہ یہ بھی یاد کریں کہ DCGI نے فائزر۔ بائسون ٹیک ویکسین کے ہنگامی حالات میں استعمال کی منظوری دینے سے انکار کردی تھی حالانکہ ویکسین نے دنیا بھر کے کئی جانے مانے ریگولیٹرس کا اعتماد حاصل کیا۔ خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور یوروپ کے اہم ریگولیٹرس نے اس کے استعمال کی منظوری دی ہے۔ آج سب سے بڑی تشویش کی کوئی بات ہے تو وہ ٹیکوں کی غیرموثر سربراہی ہے۔ ملک کے مشہور و معروف دواخانوں سے بھی ویکسین کی قلت سے متعلق رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں۔ اگر ملک کے بڑے شہروں (میٹرو پولیٹن شہروں) میں یہ حال ہے تو آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ٹائر 2 اور ٹائر 3 شہروں اور ٹاؤنس کے دواخانوں خاص کر چھوٹے اور اوسط حجم کے دواخانوں کا کتنا برا حال ہوگا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ٹیکہ اندازی مہم میں 18 تا 44 سال کی عمر کے لوگوں کو بھی شامل کرلیا گیا جس سے یقینا ویکسین کی قلت پیدا ہوگی کیونکہ یہ جوان طبقہ ہوتا ہے اور دواخانوں پر بہ آسانی اُمڈ سکتا ہے۔ مجھے تو اس بات پر بھی حیرت نہیں ہوگی جب آنے والے دنوں میں لوگ برہمی کے عالم میں دواخانوں کے انتظامیہ کا محاصرہ یا گھیراؤ کرلیں گے ، جس طرح آج ہمارے دواخانوں میں آکسیجن اور بستروں کی قلت کے خلاف عوام شدید برہمی کا اظہار کررہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت موجودہ بحران میں بری طرح ناکام کیوں ہوگئی۔ اس سلسلے میں وجوہات کی ایک فہرست پیش کرسکتا ہوں اور یہی وجوہات میڈیا (بالخصوص بیرونی میڈیا) نے پیش کی ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم وجہ حکومت کا غرور و تکبر ہے۔ ( مرکزی وزراء نے کہا تھا کہ مودی نے جس طرح کورونا وائرس کو شکست فاش دی ہے، دنیا اس کا جشن منارہی ہے) وزیر صحت ہرش وردھن نے تو ہندوستان کو ٹیکہ کی تیاری اور کورونا سے مقابلہ کے معاملے میں ’’وشوا گرو‘‘ قرار دے دیا تھا۔ دوسری اہم وجہ حد سے زیادہ مرکزیت رہی۔ ہر فیصلہ صرف ایک شخص ہی کررہا ہے اور وہ شخص وزیراعظم ہیں جبکہ ریاستوں کو ایک فرمانبردار ماتحت کی حد تک محدود کردیا گیا۔ تیسری وجہ ناقص مشورہ ہے۔ ڈاکٹر پال ، ڈاکٹر گلریا اور ڈاکٹر بھارگوا جن کا میں احترام کرتا ہوں، ایسا لگتا ہے کہ ڈیٹا کا جائزہ لے کر وزیراعظم کو بے باکانہ مشورہ دینے کے بجائے زیادہ تر وقت ٹی وی پر گزار رہے ہیں۔ چوتھی وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے اور اس سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں منصوبہ بندی کمیشن ہی نہیں ہے۔ ایسی کوئی تنظیم ہی نہیں جو ایسا لگتا ہے کہ کوئی منصوبہ بندی کی ہے یا اس بارے میں جانتی ہو۔ پانچویں وجہ آتمانربھر پر حد سے زیادہ زور و شور ہے۔ ہم یہ فراموش کرچکے ہیں کہ خودمکتفی صرف تنگ ذہن قوم پرستی تک محدود کرسکتی ہے۔

چھٹویں وجہ صرف دو ہندوستانی کمپنیوں یا ٹیکوں کی مینوفیکچرنگ کمپنیوں پر زیادہ سے زیادہ انحصار ہے حالانکہ ہماری حکومت کورونا کے خلاف قومی سطح پر جو کوشش ہورہی ہیں، اس کیلئے دوسری کمپنیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرسکتی تھی۔ (اس کیلئے اب بھی وقت ہے) یا پھر ویکسین درآمد کرنے اور ان ٹیکوں کی موثر انداز میں تقسیم کو یقینی بنا سکتی تھی۔

قوم کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے
قوم کو حکومت کی غلطیوں و ناقص پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ 30 اپریل تک ہمارے ملک میں کورونا کے سرگرم یا فعال کیسیس کی تعداد 31,70,228 درج کی گئی اور شرح اموات 1.11% رہا۔ اس طرح عالمی سطح پر کورونا سے جو لوگ متاثر ہورہے ہیں، ان میں 40% کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ اب بھی ہم ملک کو تیاری سے بچا سکتے ہیں۔ وزیراعظم آزادانہ سوچ و فکر کے حامل اور آزادانہ فیصلہ کرنے والے وزراء، طبی ماہرین، منصوبہ سازوں اور پروگرامس و پالیسیوں پر کامیابی سے عمل آوری کرنے والوں پر مشتمل ایک بااختیار گروپ تشکیل دے کر اسے بحران سے نمٹنے والا بااختیار گروپ کا نام دے سکتے ہیں اور اس گروپ کو کورونا کیخلاف لڑائی میں مکمل اختیار دیں اور وزیراعظم صرف نتائج کا جائزہ لیں۔