بحیرہ احمر میں جہازوں پر حملےہندوستان کی تجارت کو جوکھم

   

نندیتا وینکٹیش
اسرائیل۔ فلسطین جنگجس قدر طوالت اختیار کرے گی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ ساری دنیا کی معیشت پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طویل جنگ نے عالمی معیشت کیلئے ایک وسیع تر بحران کا خطرہ پیدا کردیا ہے اور خاص طور پر حالیہ عرصہ کے دوران بحیرہ احمر میں ہورہی تبدیلیاں اس معاملہ میں تشویش کو درست ثابت کررہی ہیں۔
یمن کے حوثی جنگجو بحیرہ احمر سے گذرنے والے تجارتی جہازوں اور کشتیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں اور دراصل وہ اس طرح کی کارروائیاں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یگانگت کے طور پر کررہے ہیں لیکن حوثیوں کے حملوں سے ممکنہ طور پر عالمی سپلائی چین کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور اشیائے مایحتاج اور اشیائے ضروریہ بالخصوص فیول کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں ایک سب سے اہم بات یہ ہے کہ حوثیوں کے ان حملوں کا اثر ہندوستان پر بھی راست یا بالواسطہ مرتب ہورہا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ بحیرہ احمر جو آبنائے باب المندب سے شروع ہوتا ہے اور نہر سوئیز سے جا ملتا ہے اور ایشیاء کو یوروپ اور شمالی امریکہ کے مشرقی ساحل سے ملانے والا تیز ترین سمندری راستہ پیش کرتا ہے اس کے برعکس حوثیوں کے حملوں کے خوف سے جہاز رانی کی جو کمپنیاں اب جو متبادل آبی راستوں کو اختیار کررہی ہیں وہ فاصلہ کے لحاظ سے نہ صرف طویل ہیں بلکہ مہنگے بھی ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ بحیرہ احمر میں جہازوں پر حوثیوں کے حملوں نے ہندوستان کی تجارت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔
ہندوستان‘ پٹرولیم، باسمتی چاول، آٹو موبائیل (گاڑیوں ) کے پُرزے، لائٹ اور ہیوی ( بھاری ) مشنری، کیمیکلس، پلاسٹک، تیار ملبوسات ( ریڈی میڈ گارمنٹس ) اور جوتے درآمد اور برآمد کرتا ہے۔ تجارتی اداروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ چیزیں ہندوستان کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہیں اور بحیرہ احمر میں فروغ پذیر تبدیلیوں کے باعث ان کے شدید طور پر متاثر ہونے کا پورا پورا امکان پایا جاتا ہے کیونکہ وقت پر سپلائی حاصل کرنے میں تاخیر اور سامان کے حمل و نقل یا ٹرانسپورٹیشن کے زیادہ اخراجات سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوگا بلکہ معیشت پر بھی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ گلوبل ٹریڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (GTRI) نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں کے پیش نظر ہندوستان جیسے ملک کو بھی متبادل آبی گذرگاہوں یا راستوں کو اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اسے علاقہ میں میری قائم سیکورٹی کے معاملہ میں تعاون و اشتراک کو وسعت دینی ہوگی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ عالمی خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کا تقریباً 10 فیصد حصہ بحیرہ احمر سے ہی گذرتا ہے اور اس میں ہندوستان کیلئے بھیجے جانے والے سامان تیل وغیرہ سے لدے جہاز بھی شامل ہیں اور یہ ہندوستان کی توانائی درآمدات کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔ پچھلے ہفتہ ہی بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گذرگاہوں کے معتمد ٹی کے رامچندرن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مابقی دنیا کے ساتھ ہندوستان کی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کو بتادیں کہ بحیرہ احمر میں ان دنوں جہاز رانی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ فارچن ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں اور کشتیوں پر حوثی باغیوں کے حملوں کے باعث ہندوستان کو جاریہ مالی سال میں اس کی جملہ برآمدات میں تقریباً 30 ارب ڈالرس کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کنٹینر شپنگRates میں اضافہ ہوا، اور اکسپورٹرس کو Shipments واپس لینا پڑرہا ہے۔ ریسرچ اینڈ انفارمیشن سسٹم فار ڈیولپنگ کنٹریز کی جانب سے جو ابتدائی تجزیہ کیا گیا اس میں بتایا گیا کہ اس کا مطلب ہندوستانی برآمدات میں 6.7 فیصد کمی آئی ہے جبکہ گذشتہ مالی سال میں جملہ برآمدات 451 ارب ڈالرس مالیتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ نہر سوئیز سے گذرنے والے جہازوں کی تعداد میں بھی 44 فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ یمن کے حوثی جنگجوؤں نے اس بات کا اعلان کررکھا ہے کہ اسرائیل سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والے تجارتی جہازوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ بحیرہ احمر ہندوستان کیلئے یوروپ ، امریکی مشرقی ساحل و مشرقِ وسطیٰ اور آفریقی ممالک میں اپنا سامان پہنچانے ایک بہت بڑی روٹ (گذر گاہ ) ہے۔ گذشتہ ہفتہ ہندوستان نے بحیرہ عرب کیلئے ایک جنگی جہاز روانہ کیا تھا جہاں لبریا کا جھنڈا لگا ہوا ایک بحری جہاز ساحل صومالیہ کے قریب اغوا کرلیا گیا تھا بعد میں ہندوستانی بحریہ نے کہا کہ اس جہاز کو کامیابی کے ساتھ چھڑا لیا گیا۔ مسٹر ابے سہائے کے مطابق اس طرح کے خطرات نے ہندوستانی اکسپورٹرس کو بحیرہ عرب سے گذرنے والی تقریباً 25 فیصد Shipments کو روکنے پر مجبور کیا۔ایک اور رپورٹ میں مسٹر ابے سہائے ڈائرکٹر جنرل و چیف ایگزیکیٹو آفیسر فیڈریشن آف انڈین اکسپورٹ آرگنائزیشن کے حوالہ سے بتایا گیا کہ حالیہ کشیدگی کے نتیجہ میں جواہر لال نہرو بندرگاہ ( ممبئی کے قریب ) سے سعودی عرب کی بندرگاہوں تک جانے والے کنٹینرس کے فریٹ چارجس 750 ڈالرس سے بڑھ کر 1500 ڈالرس ہوگئے ہیں جبکہ کسی یوروپی بندرگاہ کیلئے یہ فریٹ چارجس 2000 ڈالرس سے بڑھ کر 4000 ڈالرس ہوگئے ہیں۔مسٹر سہائے کہتے ہیں کہ ہندوستان‘ بحیرہ عرب روٹ ( آبی گذرگاہ )کے ذریعہ سالانہ 225-250 ارب ڈالرس مالیتی تجارت کرتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ بحیرہ احمر یا Red Sea کو بحیرہ قلزم بھی کہا جاتا ہے جو بحر ہند کی ایک خلیج ہے۔ یہ آبنائے باب المندب اور خلیج عدن کے ذریعہ بحر ہند سے جڑی ہوئی ہے اس کے شمال میں جزیرہ نما سیتا، خلیج عقبہ اور خلیج سوئز واقع ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق بحیرہ احمر ایک لاکھ 74 ہزار مربع میل یعنی 4.5 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ خلیج ایک ہزار دو سو میل (1700 کلو میٹر ) طویل اور زیادہ سے زیادہ 170 میل ( 300 کلو میٹر ) چوڑی ہے۔ اس کا شمالی ساحل مصر، فلسطین، اردن سے ملتا ہے جبکہ بحیرہ احمر کا مغربی ساحل سوڈان اور مصر سے ملتا ہے۔ مشرقی ساحل سعودی عرب اور یمن سے جنوبی ساحل صومالیہ ، جیوتی اور ایسٹریا سے ملتا ہے۔ بحیرہ احمر کے ساحلوں پر 18 شہر اور قصبہ واقع ہیں۔