برابر بیٹھنے والے بھی کتنے دور تھے دل سے

,

   

مہاراشٹرا بحران … ادھو ٹھاکرے پر ہندوتوا کا وار
دستور اور جمہوریت کیلئے بی جے پی خطرہ

اقتدار اور دولت کی ہوس ایسی بیماری ہے جس کا انجام تباہی اور زوال کی صورت میں ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں بی جے پی کو دوسری میعاد کیلئے اقتدار حاصل ہوا۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بھی بی جے پی کا اقتدار ہے ، پھر بھی اقتدار کی ہوس کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اسی ہوس نے بی جے پی کو دستور اور جمہوریت کی پاسداری کے جذبہ سے محروم کردیا ہے۔ ملک کی تمام ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنا ہے تو انتخابات میں حصہ لے کر عوام کے ذریعہ منتخب ہوکر دکھائیں۔ غیر جمہوری اور غیر دستوری انداز میں چور دروازہ سے اقتدار حاصل کرنا بہادری نہیں بلکہ بزدلی ہے۔ نریندر مودی ۔ امیت شاہ اور آر ایس ایس کے پرچارکوں کو تیسری میعاد کے لئے کامیابی کی فکر ہے جس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ عوام کے ذریعہ اقتدار تک پہنچنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے ، لہذا اپوزیشن کی حکومتوں میں بغاوت کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ عوامی منتخب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت ، عوام کیلئے حکومت اور عوام کی جانب سے منتخب حکومت کا تصور ہوتا ہے لیکن بی جے پی نے اسے بدل کر عوام کی جگہ اپنا نام شامل کرلیا ہے۔ جب تک مرکزی حکومت کی مرضی رہے اور جب تک ان کی تابعداری کی جائے گی ، اس وقت تک حکومت برقرار رہے گی۔ ملک میں جمہوریت ہے یا تانا شاہی ؟ شاہی حکومتوں کے دور میں شہنشاہ اپنے اطراف کی چھوٹی ریاستوںکو اس وقت تک برداشت کرتا ہے جب تک وہ وفادار رہیں۔ بغاوت اور عدول حکمی کا شبہ ہوتے ہی حملہ کر کے قبضہ کرلیا جاتا ہے ۔ بادشاہت میں توسیع پسندی کی مہم کو مودی حکومت نے اختیار کرلیا ہے ۔ تازہ ترین معاملہ میں مہاراشٹرا میں شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس مخلوط حکومت کو نشانہ بنایا گیا ۔ شکاری کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو بازی کبھی پلٹ بھی جاتی ہے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا میں دو مرتبہ انحراف کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کی دال گلنا مشکل اس لئے بھی ہے کہ پہلے تجربہ میں منحرف ارکان کی حکومت کی حلف برداری کے 24 گھنٹے میں پانسہ پلٹ گیا۔ مہاراشٹرا کی سیاست کے چانکیہ شرد پوار نے بی جے پی کو شکست دی تھی ۔ اس مرتبہ شیوسینا سے چند بکاؤ قائدین کو بغاوت کیلئے اکسایا گیا ہے۔ تازہ ترین سیاسی تبدیلیوں کے چلتے بی جے پی کو دوسری مرتبہ شکست کے غالب امکانات دکھائی دے رہے ہیں لیکن ہر لمحہ بدلتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’پکچر ابھی باقی ہے‘‘۔ اگر حکومت بچ نہیں پائے تو الیکشن واحد حل رہے گا۔ ملک کی تقریباً 11 ریاستوں میں اپوزیشن کا اقتدار ہے، ان میں بعض بی جے پی کے حلیف ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے خلاف دہلی میں سازش ناکام ہوچکی ہے اور ان کا اقتدار دو ریاستوں تک پھیل گیا۔مغربی بنگال ، راجستھان ، چھتیس گڑھ اور کیرالا بی جے پی کی ہٹ لسٹ میں ہیں۔ آندھراپردیش اور اڈیشہ حکومتیں بی جے پی کی حلیف جماعتوں کی طرح ہیں۔ تلنگانہ جنوبی ہند میں بی جے پی کا اصل نشانہ ہے۔ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے حکومت کے عدم استحکام کی طاقت نہیں ہے۔ الغرض اقتدار کی ہوس اور کرسی کے لالچ نے بی جے پی کو دوسری مرتبہ مہاراشٹرا کا رخ کرنے پر مجبور کردیا ۔ بی جے پی نے چنگاری لگاکر آگ بھڑکنے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس ڈرامہ کا اسکرپٹ رائٹر اور پلے بیاک سنگر بی جے پی قائدین ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ باغیوں کو پہلے سورت اور گوہاٹی میں محفوظ پناہ گاہ فراہم کی گئی۔ دونوں بی جے پی حکومتوں نے باغیوں کے ساتھ وی آئی پی جیسا سلوک کیا ہے ورنہ مخالف پارٹی ارکان کی اس قدر آؤ بھگت ناقابل فہم ہے۔ انسان جب مشکل میں ہو تو اپنے ہمدرد کی آغوش میں پناہ لیتا ہے ، اسی طرح شیوسینا کے باغی ارکان کو بی جے پی کے علاوہ دیگر ریاستوں کا رخ کرنے کا خیال نہیں آیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس بغاوت کے ڈائرکٹر نریندر مودی اور اسکرپٹ رائٹر امیت شاہ ہیں۔ باغی ارکان نے ہندوتوا کا نعرہ لگاکر بی جے پی کو بے نقاب کردیا ہے۔ شیوسینا پر بال ٹھاکرے کے ہندوتوا سے انحراف کا الزام ہے اور باغیوں نے کانگریس اور این سی پی کو چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دینے کی شرط رکھی ہے۔ آخرکار بلی تھیلے کے باہر آگئی اور باغی لیڈر یکناتھ شنڈے کے منہ میں بی جے پی کی زبان ہے۔ شنڈے کو ہندوتوا کا خیال اس وقت نہیں آیا جب وہ چیف منسٹر کے ساتھ ایودھیا میں رام لالہ کے درشن کیلئے پہنچے تھے۔ بغاوت سے دو دن قبل شیوسینا کے قیام کی 56 ویں یوم تاسیس میں چیف منسٹر کے ساتھ شریک تھے لیکن بال ٹھاکرے کے ہندوتوا کا خیال نہیں آیا۔ یوم تاسیس کے بعد دو دن میں ایسا کیا ہوگیا کہ شنڈے کو ہندوتوا کی یاد آگئی۔ صدر جمہوریہ الیکشن سے عین قبل بی جے پی نے بغاوت کے ذریعہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کے ووٹ بینک کو کمزور کرنا اور دوسری طرف چور دروازہ سے مہاراشٹرا کے اقتدار پر قبضہ کرنا اصل مقصد ہے۔
بی جے پی ملک میں موضوعات کو تبدیل کرنے کی ماہر ہے اور گودی میڈیا کے ذریعہ وقفہ وقفہ سے عوام کیلئے نیا ایجنڈہ طئے کیا جاتا ہے۔ نوٹ بندی کے فیصلہ سے عوامی ناراضگی کو دور کرنے جی ایس ٹی نافذ کی گئی۔ اس کے بعد این آر سی ، این پی آر اور سی اے اے کے نام پر عوام کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر لاکھڑا کیا ۔ کئی ماہ تک احتجاج جاری رہا کہ اچانک کووڈ کی وباء نے حکومت کی مدد کی اور تمام احتجاج ختم ہوگئے۔ کووڈ کے دوران لاکھوں مزدور بے یار و مددگار سڑکوں پر نکل پڑے اور اپنی منزل کو پہنچنے کے دوران کئی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ مائیگرنٹ ورکرس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کا مسئلہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ حکومت نے مخالف کسان بل کو منظوری دے دی۔ پھر کیا تھا ملک بھر کے کسان سڑکوں پر جمع ہوگئے۔ ایک سال سے زائد عرصہ تک احتجاج کے بعد حکومت کو بل واپس لینا پڑا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے مساجد اور ان سے بلند ہونے والی اذان کی آواز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ مساجد کی کھدائی اور مندروں کے آثار تلاش کرنے کی مہم چلائی گئی ۔ اس مہم نے سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا کام کیا۔ یہ معاملہ عدالت پہنچا تو بی جے پی ترجمانوں کے ذریعہ شان رسالت میں گستاخانہ بیانات دلائے گئے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں بیانات کی مذمت کی گئی اور عرب ممالک میں سخت موقف اختیار کیا گیا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار گستاخانہ بیانات کے ذریعہ سماج کو مذہب کی بنیاد پر توڑنا چاہتے تھے لیکن عالمی سطح پر ناراضگی نے انہیں کسی اور موضوع کی تلاش میں مصروف کردیا۔ مسلمانوں کے احتجاج سے پریشان ہوکر آرمی رکروٹمنٹ کی اگنی پتھ اسکیم کا اعلان کردیا گیا اور ملک بھر میں کئی ریلوے اسٹیشن اور ٹرینوں کو آگ لگادی گئی۔ اگنی پتھ کے خلاف نوجوانوں کا غصہ دن بہ دن بڑھنے لگا۔ ان حالات میں جبکہ ہر طرف ’’سینا ‘‘ یعنی فوج موضوع بحث تھی، بی جے پی نے مہاراشٹرا میں شیوسینا کو موضوع بحث بنادیا۔ ملک جب اگنی ویروں کی گنتی کر رہا تھا کہ اچانک شیوسینا کو اپنے حامی ارکان کی گنتی پر مجبور کردیا گیا۔ مبصرین کے مطابق حقیقی مسائل جیسے مہنگائی ، بیروزگاری ، معاشی بدحالی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے وقتاً فوقتاً موضوعات تبدیل کئے گئے۔ حکومت کا گودی میڈیا اس معاملہ میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ ملک کا ایجنڈہ گودی میڈیا کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ادارہ طئے کر رہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بحران سے نمٹنے کیلئے شردپورا میدان میں آچکے ہیں لیکن ہر گھڑی بدلتے حالات سے یہ کہنا مشکل ہے کہ شیوسینا کی زیر قیادت مخلوط حکومت کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگنی ویروں کے تقرر سے ملک کمزور ہونے کی بات اپوزیشن کر رہا تھا لیکن اچانک شیوسینا کمزور ہونے لگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کھل کر میدان میں کب آئے گی۔ شیوسینا نے ناراض قائد یکناتھ شنڈے کو چیف منسٹر کے عہدہ کا پیشکش کیا لیکن وہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کی شرط پر اڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بی جے پی کے اشارہ پر ہورہا ہے۔ بی جے پی نے بالواسطہ طور پر شرد پوار کو دھمکی دی ہے کہ وہ بحران کو ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ 2014 کے بعد سے بی جے پی نے کئی ریاستوں میں عوامی منتخب حکومتوں کو زوال سے دوچار کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا جن میں مدھیہ پردیش ، اروناچل پردیش ، کرناٹک ، گوا اور اترا کھنڈ شامل ہیں۔ مغربی بنگال ، دہلی اور مہاراشٹرا کے علاوہ راجستھان میں کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں۔ صدر جمہوریہ کے الیکشن سے عین قبل مہاراشٹرا میں ایک اور اپوزیشن حکومت کو زوال سے دوچار کرنے میں کامیابی ملے گی یا نہیں یہ آنے والے چند دنوں میں فیصلہ ہوگا۔ ساتھیوں کی اچانک بغاوت پر ادھو ٹھاکرے کے خیالات علامہ اختر زیدی کے اس شعر کی طرح ہیں ؎
میرا ماتھا جب ہی ٹھنکا فریب رنگ محفل سے
برابر بیٹھنے والے بھی کتنے دور تھے دل سے