برادرانِ وطن کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنا سنت نبویﷺ

   

مکہ مکرمہ میں روز بہ روز کفار و مشرکین کی ایذا رسانی میں اضافہ ہونے لگا ، وہ مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کررہے تھے ، ان کے عزائم بلند ہورہے تھے اور اسلام کی بتدریج وسعت کے ساتھ ان کے سینوں میں غیظ و غضب کے لاوے پھوٹ رہے تھے ۔ بالآخر مسلمان ہجرت پر مجبور ہوگئے کوئی حبشہ کا رُخ کررہا تھا تو کوئی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کررہا تھا بالآخرنبی اکرم ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم ہوا اور آپ ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ آپ ﷺ کی آمد سے قبل اور آمد کے ساتھ ہی سینکڑوں مسلمانوں کے قافلے مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنائے ، اپنا گھر ، جائیداد ، تجارت ، ہرچیز کو چھوڑکر اپنی جان و ایمان کو بچاتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے ۔ سب سے پہلے ان مہاجرین کی معیشت کاانتظام کرنا ناگزیر تھا تو نبی اکرم ﷺ نے نہایت حکمت اور دانائی سے ایک اہم و مشکل معاملے کو حل فرمایا اور انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ یعنی اسلامی اُخوت و بھائی چارگی کا رشتہ قائم فرمایا اور مہاجرین کو مدینہ منورہ کے انصار صحابہ کرام کے ساتھ معیشت میں بھی شریک فرمادیا۔
مسلمان مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے ، لیکن ہجرت کے باوجود قریش مکہ کی انتقامی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ مزید تیز ہوگئی اور وہ بہرصورت اسلام اور مسلمانوں کو روئے زمین سے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کرچکے تھے ۔ ان کی طاقت و قوت کا سارے عرب میں ڈنکا بجتا تھا ، لہذا ان سے مقابلہ کرنے یا اُن کی ریشہ دوانیوں سے بچنے اور اسلام کو مضبوط و مستحکم کرنے کیلئے مدینہ منورہ میں ایک سیاسی پلیٹ فارم کا قیام ناگزیر تھا ، جس کے تحت مدینہ منورہ میں یہود کے دس قبائل اور اوس و خزرج کے بارہ قبائل آباد تھے ۔ اوس و خزرج اسلام کی آمد سے قبل باہم ایک طویل خونریز جنگ میں مبتلا رہ چکے تھے ۔ مدینہ منورہ کی اکثریت غیرمسلم آبادی پر مشتمل تھی،ان میں ایک اہم عنصر یہود کا بھی تھا ۔ باہمی جھگڑوں اور تنازعات کی وجہ سے مدینہ کا شیرازہ بکھرگیا تھا اور وہ امن و سکون کے متلاشی تھے لیکن امن کی راہ میں قبائلی عصبیت و منافرت اور قدیم مروجہہ قبائلی نظام اہم رکاوٹ بنے ہوئے تھے ۔ یہ حضور اکرم ﷺ کی حکمت و بصیرت تھی کہ آپ ﷺ نے اس منتشر قوم کے سامنے پہلی مرتبہ متحدہ قوم کا تصور دیا ، شہریوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی فرمائی ، ان کے قدیم مروجہ قبائلی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مدینہ منورہ میں ایک اُمت اور ایک ملت کی تجویز رکھی ، مذہبی آزادی اور قبائل کے داخلی کلی اختیار کے ساتھ بیرونی حملوں کی مدافعت اور اختلافات کے باہمی تصفیہ کی بنیاد پر ان سارے قبائل کو متحد فرمایا چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد کے مکان پر سارے مسلم اور غیرمسلم قبائل کے نمائندوں کا اجتماع ہوا اور آپ ﷺ کی تجویز پر سارے قبائل بیرونی حملوں کے دفاع اور اندرونی مسائل کی یکسوئی کے لئے ایک چھوٹی سی ریاست کی تشکیل پر متفق ہوگئے اور سبھوں نے باتفاق آراء نبی اکرم ﷺ کو جدید ریاست کا حاکم اعلیٰ منتخب کیا ۔ یہ درحقیقت مدینہ منورہ میں پہلی سیای فتح اور فتح مبین کا پیش خیمہ تھی ۔ اس ریاست کی بنیاد کامل رواداری ، مذہبی آزادی اور باہمی تعاون پر مبنی تھی ۔ یہ ایسے اُمور تھے کہ غیرمسلم اور یہود بھی اس کی افادیت کے منکر نہیں ہوسکتے تھے ۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ریاست اور شہریوں کے حقوق و فرائض کی نشاندہی کی ، انصاف اور قانون کی بالادستی پر مبنی حکومت قائم کی اور قانون کے سامنے مساوات کا حصول جاری فرمایا ۔ انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ کے اُصول وضوابط مرتب کئے ۔ اس طرح انسانی معاشرہ کی تشکیل کیلئے تحریری قانون و دستاویز کو مدون فرمایا ، جس کو ساری دنیا ’’میثاق مدینہ ‘‘ کے نام سے جانتی ہے اور عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمیداﷲ (پیرس، کامل جامعہ نظامیہ ) کے مطابق ’’یہ دستاویز دنیا کی تاریخ کا پہلا تحریری قانون تھا جو مختلف قبائل ، مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے درمیان طئے پایا تھا ۔ اس کو آپ پہلی جمہوری حکومت کہیں یا اسلامی مخلوط حکومت کا نام دیں یا Unity in Diversity کی عمدہ مثال سے تعبیر کریں یا اس کو ذات پات ، قبائل ، بادشاہت ، ملوکیت کی زنجیروں سے آزاد انسانیت کے سامنے جمہوریت اور سیکولرازم کے عملی نمونہ سے موسوم کریں یعنی زمانہ جاہلیت کے بعد دنیا میں پہلی جمہوری مخلوط ریاست کا قیام نبی اکرم ﷺ کی دین ہے جس میں بحیثیت شہری مسلم اور غیرمسلم سب کو برابر کے حقوق حاصل تھے ۔
مدینہ منورہ کے مسلمان ، یہود اور غیرمسلم باشندگان کے باہمی اتحاد سے قائم کردہ پہلی جمہوری حکومت فی الواقعی ہندوستانی مسلمانوں کو دعوت فکر اور پیغام عزیمت دیتی ہے کہ کس طرح حضور اکرم ﷺ نے جوکہ مدینہ منورہ میں ایک پردیسی تھے مختلف الخیال ، مختلف العقیدہ ، اور باہم منتشر قبائل کو متحدہ و یکجا کرکے ایک ملت بنائی ۔ سارے مدینہ منورہ کو بلالحاظ مذہب و ملت تمام شہریوں کے لئے محرم قرار دیا ۔ حب الوطنی کے بیج بوئے اور مشترکہ اقدار پر سب کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا، سیاسی رواداری اور مذہبی آزادی کے اُصول وضع کئے اور سیاست میں اخلاقی عناصر کو شامل فرمایا ۔ ظلم ، ناانصافی ، عدم مساوات ، منافرت اور ایسی ہی دیگر خرابیوں کا خاتمہ فرمایا ۔ کمزوروں ، ناداروں اور مظلوموں کی فریادرسی کا اہتمام کیا ۔ داخلی امن و امان کو قائم فرمایا اور تحفظ و دفاع کا خاطر خواہ انتظام کیا ، جس کے نتیجے میں مدینہ منورہ ، قریش مکہ کے خلاف ایک مشترکہ اتحاد بنکر اُبھرا اور دیگر قبائل بھی قریش کا ساتھ دینے سے کترانے لگے ۔
ہندوستانی مسلمان غیرمسلمین کے ساتھ ملکر دستورِ ہند کے تحفظ اور داخلی امن و سلامتی ، مادروطن کے مصالح اور باہمی ترقی و مؤثر خوشحالی کے لئے ہرممکنہ کوشش کرنا اپنا مذہبی اور ملی فریضہ سمجھتا ہے اور آج جو حالات ملک میں پیدا ہوئے ہیں اس کے سدباب کے لئے ہندوستانی مسلمان کی قربانی کافی نہیں ہے کیونکہ یہ نئے قوانین CAA اور NPR مسلمانوں کے لئے خطرہ کی گھنٹی نہیں بلکہ یہ دستور ہند کے لئے نقصان دہ ہیں اس لئے مسلمانوں کو اس کے سدباب کے لئے ہندو ، سکھ ، عیسائی ، جین غرض کہ ہر ہندوستانی کے ساتھ ملکر ظلم و زیادتی ، ناانصافی ، غیرجانبداری ، منافرت ، عصبیت ، جہالت و ناخواندگی کے خلاف صف آراء ہونے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے مسلمانوں کو سیاسی حکمت عملی ، دور اندیشی اور جامع منصوبہ بندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔