بریگزٹ مسئلہ پر مستعفی ہوجانے وزیر اعظم تھریسا مے پر دباو

   

لندن 24 مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) وزیر اعظم برطانیہ تھریسا مے پر بریگزٹ معاملہ سے نمٹنے کے طریقہ کار پر خود اپنی کابینہ سے دباو میں اضافہ ہوگیا ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں۔ برطانیہ کی بے شمار میڈیا رپورٹس کے بموجب وزیر اعظم سے ناراض وزرا اور ارکان پارلیمنٹ انہیں مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دینے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں ۔ بریگزٹ مسئلہ پر برطانیہ پارلیمنٹ میں آئندہ ہفتے رائے دہی ہونے ولی ہے اور تھریسا مے اب بھی دستبرداری معاہدہ کی تائید کر رہی ہیں۔ ان کے اس اقدام کے نتیجہ میں ناراضگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور انہیں اس کی وجہ سے اپنے عہدہ سے استعفی دینا بھی پڑسکتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ تھریسا مے کو استعفی پیش کرتے ہوئے ایک کارگذار وزیر اعظم کی راہ ہموار کرنی ہوگی جو ان کے نائب ڈیوڈ لڈنگٹن ہوسکتے ہیں۔ تاہم دفتر وزیر اعظم 10 ڈاوننگ اسٹریٹ نے اس طرح کے کسی منصوبہ کی تردید کی ہے اور خود لڈنگٹن نے کہا ہے کہ وہ 100 فیصد اپنی وزیر اعظم کے ساتھ ہیں۔ لڈنگٹن کابینی دفتر کے وزیر ہیں۔ برطانیہ کے چانسلر فل ہیمنڈ نے تاہم اس مسئلہ پر کہا کہ یہ مسئلہ وزیر اعظم سے متعلق نہیںہے ۔ وزیر اعظم کی تبدیلی سے کوئی مدد نہیں ملے گی ۔ پارٹی یا حکومت کے بدلنے سے بھی صورتحال بہتر نہیں ہوگی ۔ برطانیہ میں کچھ گوشوں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بریگزٹ مسئلہ پر ملک میں دوبارہ استصواب عامہ کروایا جانا چاہئے ۔ فل ہیمنڈ نے اس تعلق سے کہا کہ اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ ہفتہ کو لاکھوں کی تعداد میں برطانوی شہریوں نے لندن کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ اس مسئلہ پر دوبارہ استصواب عامہ کا اہتمام کیا جائے ۔ وزیر اعظم تھریسا مے پر جہاں خود اپنی کابینہ کے ارکان کی جانب سے دباو میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں انہیں یوروپی یونین کی جانب سے بھی دباو کا سامنا ہے کیونکہ یونین اس مسئلہ پر مزید التوا یا تاخیر کے حق میں نہیں ہے ۔ تاہم اگر پارلیمنٹ میں ان کا منصوبہ منظوری حاصل ہوتا ہے تو یوروپی یونین سے کچھ وقت مل سکتا ہے ۔