بغاوت کے مقدمات اور عدلیہ

   

آئے تھے بزم ناز میں کیا کیا سمجھ کے ہم
اٹھے تو ساتھ ہجر کے دن رات لے چلے
بغاوت کے مقدمات اور عدلیہ
ہندوستان میں اکثر دیکھا جا رہا ہے کہ جو لوگ حکومت کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں یا حکومتوں کی غلط کاریوں اور ناکامیوں کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو مقدمات سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ کچھ معاملات میں تو حکومت کی کھینچائی کرنے والوں کو غداری اور بغاوت کے مقدمات میں ماخوذ کیا جا رہا ہے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جہاں عوام میں اس طرح کے مقدمات کے تعلق سے شدید ناراضگی پائی جاتی ہے اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت انتقامی جذبہ کے تحت اس طرح کے مقدمات درج کر رہی ہے اور قانون کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے وہیں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ عدلیہ میں بھی اس طرح کے مقدمات پر ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اسی سلسلہ میں سپریم کورٹ نے آج مرکزی حکومت کی ٹیکہ اندازی پالیسی کے مسئلہ پر سماعت کرتے ہوئے ایک طنزیہ ریمارک کیا جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومتیں کس طرح سے مخالفانہ آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گذشتہ دن ایک ٹی وی چینل پر کچھ تصاویر پیش کی گئیں جن میں دکھایا گیا کہ ایک نعش کو ‘ جو مبینہ طور پر کسی کورونا مریض کی تھی ‘ اترپردیش میں ایک دریا میں پھینکا جا رہا ہے ۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے دوران طنز کیا کہ کیا اب اس چینل کے خلاف بھی بغاوت اور غداری کا مقدمہ درج کیا جائیگا ؟ ۔ اس ریمارک سے پتہ چلتا ہے کہ بغاوت اور غداری کے جو مقدمات حالیہ وقتوں میں درج کئے گئے ہیں ان پر کس حد تک ناراضگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ آندھرا پردیش حکومت کی جانب سے بھی حال میں دو ٹی وی چینلوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے جنہوں نے ایک باغی رکن پارلیمنٹ کے ریمارکس کو پیش کیا تھا ۔ عدالت نے کہا کہ حکومت آندھرا پردیش کی جانب سے چینلوں کے خلاف بغاوت و غداری کے مقدمات دراصل چینلوں کی کارکردگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ عدالتیں ان مقدمات کی توضیح کریں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عدلیہ میں اس طرح کے مقدمات پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ ماضی میں بھی عدالتیں ناراضگی کا اظہار کرچکی ہیں۔
جاریہ سال مارچ میںجموں و کشمیر کے رکن پارلیمنٹ فاروق عبداللہ کے خلاف بھی اسی طرح کے ایک مقدمہ کو درج خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ حکومت کے خیال سے اختلاف کرنا بغاوت نہیں کہلاتا ۔ فاروق عبداللہ کی جانب سے دفعہ 370 کی تنسیخ کے خلاف ایک ریمارک پر یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ درخواست گذاروں پر 50 ہزار روپئے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا ۔ جاریہ سال یکم مئی کو عدالت نے بغاوت سے متعلق قانون کی اہمیت کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پر مرکز کی رائے بھی طلب کی تھی ۔ گذشتہ سال ڈسمبر میں سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس مدن بی لوکر نے کہا تھا کہ ملک میں بغاوت اور غداری سے متعلق قانون کو آزاد صحافت اور اظہار خیال پر پابندی عائد کرنے استعمال کیا جا رہا تھا ۔ اس سے حکومت کے خلاف اظہار خیال کرنے والوں کی آزادی متاثر ہو رہی ہے ۔ عدلیہ میں اس طرح کے ریمارکس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومتیں کس طرح سے اس قانون کا بیجا استعمال کرتے ہوئے مخالفانہ آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ملک میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں طلبا اور نوجوانوں تک کو نہیں بخشا گیا اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر بھی انہیں بغاوت و غداری کے مقدمات درج کرکے جیلوں کو بھیج دیا گیا ۔ اس کے برخلاف ملک کے دستور و قانون کے خلاف سر عام بیانات دینے والوں اور دستور کی دھجیاںاڑانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور انہیںتحفظ بھی فراہم کیا گیا ۔ یہ حکومتوں کے دوہرے معیارات ہیں اور انہیں اپنے اقدامات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔
سیول سوسائیٹی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والوں کی جانب سے پہلے ہی اس طرح کے مقدمات کی مذمت کی جاتی رہی ہے اور عدلیہ میں بھی اس تعلق سے ناراضگی میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ عدلیہ کی ناراضگی ایک مثال ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومتیں کس طرح سے اس قانون کا بیجا استعمال کر رہی ہیں۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس میں حکومت پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ملک کی سالمیت اور آزادی کے خلاف اظہار خیال کرنے والوں کو بخشا نہیں جانا چاہئے لیکن حکومت کو آئینہ دکھانے پر اس طرح کے مقدمات درج کرنے اور مخالفانہ آوازوں کو بند کرنے کا سلسلہ ترک کرنا چاہئے ۔ عدلیہ کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔