بورس جانسن کی مشکلات

   

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی حالات متاثر ہو رہے تھے اور عوام میںحکومت کے خلاف ایک طرح کی بے چینی پیدا ہونے لگی تھی ۔ لوگ بجلی کی شرحوں میں اضافہ اور غذائی اجناس کی قیمتوں میںبے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ سرکاری اور خانگی ملازمین کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے تنخواہوں میںاضافہ کا مطالبہ کیا جا رہاہے تاکہ اخراجات زندگی میں جواضافہ ہوا ہے اس سے نمٹا جاسکے ۔ ریل ورکرس کی جانب سے اب تک چار مرتبہ احتجاج کیا گیا ۔ اس کے علاوہ نیشنل ہیلت اسکیم کے ورکرس بھی احتجاج کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ دوسرے شعبہ جات میں بھی حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ وہاں بھی ورکرس کی جانب سے احتجاج کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اس کے علاوہ بورس جانسن کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود ان کی پارٹی کنزرویٹیو پارٹی کی جانب سے ان کے خلاف پارلیمنٹ میںتحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ۔ حالانکہ بورس جانسن نے اس تحریک کو شکست دیدی ہے لیکن ان کے مسائل اور مشکلات میںکوئی کمی نہیںآئی ہے ۔ ان کے ساتھی ارکان پارلیمنٹ پارٹی قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک بار پھر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بورس جانسن کیلئے آگے کا سفر مشکل ہوسکتا ہے ۔ ضمنی انتخابات میںان کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ان شکستوں کے نتیجہ میں بھی بورس جانسن کی مخالفتوں میںاضافہ ہوا ہے ۔ اسی طرح حکومت میںشامل وزراء اور پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے عوامی حلقوں میںبے راہ روی کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ پر جنسی بے راہ روی کے الزامات عائد ہوئے ہیں اور یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ بورس جانسن اس شکایت سے واقف تھے اس کے باوجود انہیںذمہ داری سونپی گئی ۔ حالانکہ رکن پارلیمنٹ کو معطل کردیا گیا ہے لیکن اس کے اثرات بورس جانسن حکومت پر پڑنے شروع ہوگئے ہیںاور ان کے دو وزراء مستعفی ہوگئے ہیں۔
چانسلر رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے بورس جانسن پر تنقید کرتے ہوئے استعفی پیش کردیا ہے اور کہا ہے کہ جو طریقہ کار بورس جانسن نے اختیار کیا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے ۔ حکومت اورپاری کا کام کاج اس طرح نہیںچلایا جاسکتا ۔ دوسرے کچھ وزراء بورس جانسن کی حمایت میںسامنے آئے ہیںلیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت کا امیج بری طرح سے متاثر ہوگیا ہے ۔ خود بورس جانسن پر کورونا وباء کے دوران قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پارٹی میںشرکت کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے ۔ ان کے خلاف مزید رپورٹ بھی منظر عام پر آسکتی ہے ۔ انہیںاس پارٹی گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے جرمانہ بھی اداکرنا پڑا ہے ۔ اس سارے معاملہ سے بورس جانسن کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جہاں پارٹی گیٹ جیسے معاملات سے شخصی طور پر بورس جانسن کو نقصان ہوا ہے وہیںمہنگائی اور اخراجات زندگی میں اضافہ کی وجہ سے عوام میں بھی ناراضگی پیدا ہوئی ہے ۔ عوام پر مسلسل معاشی بوجھ عائد ہوتا جا رہا ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی عام برطانوی شہریوں کیلئے مسائل کا سبب بن رہی ہیں۔ حکومت پر ٹیکس کٹوتی کیلئے دباؤ بھی بڑھ رہا ہے لیکن حکومت ایک حد سے زیادہ ٹیکس میں کٹوتی نہیں کرسکتی ۔ کچھ اقدامات ضرور کئے گئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے عوام کو اس قدر راحت نہیںمل سکی ہے جتنی انہیںضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
سابق وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلئیر بھی ایسا لگتا ہے کہ سیاسی میدان میں دوبارہ سرگرم ہو رہے ہیں۔ حالانکہ وہ بذات خود انتخابی سیاست میںحصہ نہیںلیں گے اور انہیںیہ اعتراف بھی ہے کہ یہ سب کچھ ان کیلئے آسان نہیں ہوگا اسی لئے وہ در پردہ کنزرویٹیو پارٹی کے خلاف محاذ آرائی کرنے اور لیبر پارٹی کے حق میں حالات کو سازگار کرنے کے منصوبے رکھتے ہیں۔ خود اپنے ارکان پارلیمنٹ اور وزراء کی تائید سے محرومی بھی عوام پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ان حالات میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بورس جانسن کی مشکلات میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وہ ان پر قابو پانے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ ان کے پاس آئندہ انتخابات کیلئے زیادہ وقت بھی نہیںرہ گیا ہے ۔