بچوں پر کارٹون پروگرامس کے اثرات

   

پیارے بچو! بلا شبہ اولاد ، والدین کے پاس ایک بہت بڑی نعمت، قیمتی سرمایہ اور ایک اہم ترین امانت ہے، اگر اِس کی حفاظت کی جا ئے، اِسلامی تعلیمات پر عمل پیرا کیا جائے ، عصری تعلیم وتربیت دی جائے تو یہبہترین انسان بن سکتے ہیں، لیکن اگر ان تمام باتوں کو نظر انداز کردیا جائے اور صرف اُن کی جسما نی ضرورتوں یا دنیاوی زندگی کی فکر کی جائے تو وہ سماج کیلئے نہ صرف نقصان دہ بلکہ بعض مرتبہ معاشرہ کیلئے ناسور، والدین کیلئے درد سر اور ملت اِسلامیہ کیلئے بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا : کسی باپ نے اپنی اولاد کو کو ئی تحفہ، حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔
اب آتے ہیں ہمارے اصل موضوع کی طرف ، اِنسان دشمن اور اسلام دشمن طاقتوں نے اپنے شیطانی میڈیا کا سہا را لے کر بلالحاظ مذہب سارے بچوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ اس میڈیا نے نئی نسل کے جذبات کوغلط رُخ دینے کیلئے طرح طرح کے حربے آزمائے اور بچوں کی صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ وقت کی بربادی کا سامان کیا۔ کارٹون پروگرامس کی شکل میں ایسا جال بچھا یا گیا ۔بظاہر بچوں کیلئے تفریح کا سامان مہیا کرنے والے یہ ٹی وی چیانلس پس پردہ اپنے اندر بچوں کے اخلاق بگاڑتے ہیں اور والدین نے بھی اسے بچوں کیلئے بے ضرر اور بچپن کی ضرورت سمجھ لیا ہے۔ والدین یہ سوچ کر کہ ہمارے بچے باہر کھیلنے سے بہتر ہے کہ وہ ہماری نظروں کے سامنے میں رہ کر گھر میں کارٹون پروگرامس دیکھیں۔جبکہ اس سے بچے کے جسم اور ذہن پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
کارٹونس کے ذریعہ بچوں کے عقائد پر حملے ہو رہے ہیں کیونکہ اکثر کا رٹونس میں باطل مذہب کی ترجما نی ہو تی ہے مثلاً کسی میں جادو گروں کی جادو گری اور اُس کی اثر کو دکھایا جاتا ہے، کسی میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی بت کی پو جا کرنے سے وہ مشکل دُور ہو گئی ۔ کسی کا رٹون میں درخت وغیرہ کو آفات اور مصیبتوں سے حفاظت کر نے والے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ کسی میں صلیب اور بت کے ذریعہ پریشانیوں کو دُور ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ بچے چونکہ بہت جلد حیرت انگیز چیزوں کا اثر قبول کر لیتے ہیں اور پھر اُن میں اِسلا می تعلیمات کے متعلق منفی رجحانات پیدا ہو نے شروع ہو جا تے ہیں۔
v بہت سے کا رٹون پروگرامس میں بچوں کو لڑتے جھگڑتے، مار پیٹ کرتے دکھا یا جا تا ہے جس سے بچوں میں لڑنے جھگڑنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے تو وہیں دوسری طرف ہمدردی اور انسانوں کی خدمت کا جذبہ اور دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر مدد کر نے کا مزاج بھی ختم ہوتا جاتا ہے۔
v کارٹون پروگرامس کو ایسے انداز میں پیش کیا جارہا ہے جو اسلا می تعلیمات کے خلاف ہوتے ہیں ۔
v بہت سے کارٹون پروگرامس میں جرائم کر نے اور اُن کے برے انجام سے بچنے، اسی طرح جھوٹ بولتا دکھلایا جاتا ہے جن سے بچے میں جرم کر نے اور جھوٹ بولنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔
v بچوں کا وقت جس میں انہیں زندگی میں کام آنے والا علم سیکھنا ہے اور مختلف صلاحیتیں اور ہنر پیدا کرنا ہے ، وہ وقت بے کا ر کارٹونس پروگرامس کے حوالے ہورہا ہے۔
v ایک امریکی ادارہ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسے بچے جو زیادہ تر کا رٹون دیکھتے رہتے ہیں ، آخرکار وہ بے حس ہو جا تے ہیں، دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر انہیں اُن کی مدد کرنے کا خیال نہیں آتااور ایسے بچے جو مسلسل تشدد کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں ،اُن کا رویہ لڑائی جھگڑے کا ہوجاتا ہے ، اور وہ نامناسب باتوں کیلئے ضد کرتے ہیں۔
v ایسے بچوں کی جسمانی، ذہنی، اور تعلیمی نشو نما اور غذائی عادتیں بھی متاثر ہوجاتی ہے۔
v بعض کا رٹون پروگرامس ایسے ہو تے جن میں بڑوں خاص طور پر والدین اور بڑے بھائی بہنوں کی توہین اور ان کے ساتھ بیہودہ مذاق اور بدتمیزی دکھائی جاتی ہے جس سے بچوں میں والدین کا مقام و مرتبہ اور بڑوں کا ادب پیدا ہونے کے بجائے بچوں میں نا فرما نی ، بدتمیزی اور ہٹ دھرمی پیدا ہوجاتی ہے۔
اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے فرمان کو مدنظررکھ کر اپنے بچوں کی تربیت اور ان کی شخصیت سازی کریں ، انہیں احکام الٰہی ،سنت نبویؐ اور صحابہؓ کے قصے سنائیں یا دکھائیں ۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ خود والدین اپنے بچوں کے ساتھ اِسلامی پروگرامس دیکھیں یا انہیں پڑھ کر سنائیں۔
v والدین کو چاہئے وہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، کمسن بچوں کو ٹی وی کے حوالے کر کے خود کو ذمہ داری سے آزاد نہ سمجھیں، اور اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔
v حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بگاڑنے والے پروگرامس پر پابندی لگائے اور بچوں کیلئے مخصوص ٹی وی چیانلس کو گائیڈ لائنس جاری کریں۔
v جمعہ کے موقع پرمسجدوں میں خطیب حضرات اپنے خطبوں میں، علماء کرام اپنی تقریروں میں اور مضمون نگار اپنے مضامین میں نقصان دہ کارٹون پروگرامس کے بارے میں مسلمانوں میں شعور پیدا کریں۔
کیونکہ بچے، قوم کے مستقبل کو تعمیر کرنے والے ہوتے ہیں اور یہی بچے اگر بگڑ جائیں اور صراط مستقیم سے ہٹ جائیں تو پھر قوم اپنی ظاہری ترقی کے با وجود آخرت میں اللہ کے سامنے کامیاب ہونامشکل ہوجائے گا۔ ظاہر سی بات ہے جب بچے ، اخلاق اور مستقبل کو خراب کرنے والے پروگرامس دیکھنے کے عادی ہوچکے ہوں گے تو مہذب یا دیندار لوگوں کو وہ اپنا آئیڈیل نہیں سمجھیں گے اور دین سے دُور افراد خاص طور پر فلم اسٹار کو اپنا رول ماڈل مانیں گے اور مسلمانوں کو عظیم الشان اِسلامی ہستیوں کے واقعات سننے اور سنانے والا بنادے ۔آخر میں اللہ سے دُعا ہے کہ وہ والدین اور اولاد دونوں کو صراط ِمستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔