بچوں کے سامنے بے شرمی والی حرکتیں نہ کی جائے

   

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
جب اللہ تعالیٰ بچے کی ولادت فرمادے تو ماں کے لئے یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے اور بچہ کے لئے ماں کا پہلا تحفہ اس کا اپنا دودھ ہوتا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ بچے کو اپنا دودھ ضرور پلائے، کیونکہ اس سے بہتر غذا بچے کو کوئی اور نہیں مل سکتی۔ ہر ماں کو چاہئے کہ بچے کو اپنا دودھ ضرور پلائے، تاکہ بچے کے اندر ماں کی محبت پیدا ہو۔ اگر ماں دودھ نہیں پلائے گی تو اس کی محبت بچے کے اندر کس طرح آئے گی؟۔
ماں کو چاہئے کہ بچے کو جب دودھ پلائے تو خود بسم اللّٰہ پڑھ لے اور جتنی دیر بچہ دودھ پیتا رہے، ماں اللہ کے ذکر میں مشغول رہے اور یہ دعاء کرتی رہے کہ ’’اے اللہ! میرے دودھ کے ایک ایک قطرے میں میرے بیٹے کو علم کا سمندر عطا فرما‘‘۔ ماں اگر اس وقت دعاء کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی مائیں باوضوء اپنے بچوں کو دودھ پلایا کرتی تھیں۔ اگر اِس دور میں کوئی ماں اپنے بچے کو باوضوء دودھ پلاتی ہے تو وہ بہت ہی خوش نصیب ہے۔ اگر نیک خصلت ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے گی تو اس کے اندر ماں کے اخلاق پیدا ہوں گے، یہاں تک کہ ماں کی ایمانی کیفیت کی برکات بھی بچے کے اندر آئیں گی۔
یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو عورتیں اپنے بچوں کو ڈبوں کا دودھ پلاتی ہیں، ان کے بچے اکثر بیمار رہتے ہیں، جس کا سبب ان کے فیڈر اور چوسنیاں ہیں۔ چوں کہ یہ ربر سے بنتی ہیں، اس لئے اس کے اندر بیکٹیریا کا چھپنا آسان ہوتا ہے۔ اب اگر یہ بچہ بیمار ہوتا ہے تو اس میں ماں کا قصور ہے۔
جب بچے کی پیدائش ہو تو بچے کی تہنیک کروانا سنت ہے اور یہ تہنیک کسی نیک بندے سے کروانی چاہئے۔ تہنیک کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان کے سامنے اقامت کہی جاتی ہے۔ یہ اللہ رب العزت کا نام ہے، جو بچے کے دونوں کانوں میں ڈالا جاتا ہے، گویا اللہ کی عظمت اس کو سکھا دی گئی۔ بچے کا نام ہمیشہ اچھا رکھیں، اللہ رب العزت کو عبد اللہ نام سب سے زیادہ پسند ہے۔ عبدالرحمن اور عبد الرحیم نام بھی پسندیدہ ہیں۔ یعنی ایسے نام رکھیں کہ قیامت کے دن جب پکارے جائیں تو اللہ رب العزت کو اس بندے کو جہنم میں ڈالتے ہوئے حیا محسوس ہو۔ بچے کے حقوق میں سے یہ بھی ایک حق ہے کہ ماں باپ ایسا نام رکھیں کہ جب بچہ بڑا ہو اور اس نام سے اس کو پکارا جائے تو بچے کو خوشی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ جس گھر میں کوئی بچہ ’’محمد‘‘ نام کا ہوتا ہے تو اللہ رب العزت اس نام کی برکت سے سب اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بَری فرمادیتا ہے۔ یعنی ’’محمد‘‘ اور ’’احمد‘‘ نام بھی بہت پیارا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تو دس دس نسلوں تک باپ کا نام ’’محمد‘‘ پھر بیٹے کا نام ’’محمد‘‘ پھر اُس کے بیٹے کا نام ’’محمد‘‘ یعنی اس نام سے انھیں اتنا پیار تھا کہ دس دس نسلوں تک یہی نام چلا جاتا۔ صحابۂ کرام اور اولیائے عظام کے ناموں پر بھی بچوں کے نام رکھیں، تاکہ قیامت کے دن ان ہی کے ساتھ ان کا حشر ہو اور اللہ رب العزت کی رحمت ہو۔ اسی طرح بچیوں کے نام بھی صحابیات، امہات المؤمنین اور نبی علیہ السلام کی بیٹیوں کے ناموں پر رکھیں۔ ایسے نام ہرگز نہ رکھیں، جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو۔ بہرحال اس بات کا خاص خیال رکھیں۔ جب بچے کی ولادت ہو تو ساتویں دن عقیقہ کرنا سنت ہے۔ بیٹے کے لئے دو بکرے اور بیٹی کے لئے ایک بکرا۔ یہ خوشی کا اظہار ہے۔ خود بھی اس کو کھائیں، رشتہ داروں اور غرباء کو بھی کھلائیں۔
واضح رہے کہ جب بھی ماں تلاوت قرآن پاک کے لئے بیٹھے تو اپنے بچے کو اپنی گود میں لے کر بیٹھے۔ یقیناً قرآن پڑھنے کی برکتیں آپ کے بچے کے اندر اُتر جائیں گی۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں باپ نے اپنے بچے کو مدرسہ میں داخل کیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد بچے کا باپ مدرسہ گیا، تاکہ اپنے بچے کی کار کردگی کا جائزہ لے۔ جب قاری صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آپ کے بچے نے تین پارے تو اتنی جلدی حفظ کرلئے کہ ہمیں یقین نہیں آتا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تو پہلے سے ہی تین پارے کا حافظ تھا۔ ان تین پاروں کے بعد پھر اس نے عام معمول کے مطابق سبق لینا شروع کیا۔ خاوند نے جب یہ بات اپنی بیوی کو بتائی تو بیوی مسکرانے لگی۔ خاوند نے پوچھا ’’اس میں مسکرانے کی کیا بات ہے؟‘‘۔ بیوی نے کہا ’’بات یہ ہے کہ میں تین پاروں کی حافظہ ہوں، جب بھی میں پڑھنے بیٹھتی تھی تو بچے کو گود میں لے کر بیٹھتی تھی اور بار بار ان تین پاروں کی تلاوت کرتی تھی، یعنی ان تین پاروں کا نور میرے بیٹے کے سینے میں اُتر گیا۔ پھر جب ہمارا بچہ مدرسہ میں گیا تو تین پاروں کا حافظ جلد بن گیا، یعنی یہ نور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس کے دل میں رکھ دیا‘‘۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ جس ماں یا باپ نے بچے کی تربیت ایسی کی کہ اس نے جب بولنا شروع کیا اور سب سے پہلے اللہ کا نام زبان سے نکالا تو اللہ تعالیٰ اس کے ماں باپ کے سب پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ یعنی بچوں کو پہلے ’’امی‘‘ اور ’’ابو‘‘ کا لفظ بولنا نہ سکھائیں، بلکہ ہمیشہ لفظ ’’اللہ‘‘ بولنا سکھائیں۔ جب آپ بار بار بچے کے سامنے ’’اللہ‘‘ کا لفظ کہیں گے تو بچہ بھی لفظ ’’اللہ‘‘ پہلے ادا کرے گا۔ ماضی کی مائیں اپنے بچوں کو ’’حسبی ربی جل اللّٰہ مافی قلبی غیر اللّٰہ نور محمد صلی اللّٰہ لاالہ الااللّٰہ‘‘ کی لوری دیا کرتی تھیں، جس کے اثرات بچے کے دل پر ہوتے تھے۔
بچے کا دماغ کیمرے کی طرح ہوتا ہے، ہر چیز کا عکس محفوظ کرلیتا ہے۔ حکماء نے لکھا ہے کہ چھوٹے بچے کے سامنے کبھی کوئی بے شرمی والی حرکت نہ کی جائے۔ میاں بیوی یہ نہ سمجھیں کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے، اس کو کیا پتہ۔ اگرچہ وہ چھوٹا ہوتا ہے، لیکن اس کے ذہن کے بیک گراؤنڈ کے اندر یہ سب مناظر نقش ہوتے رہتے ہیں، اس لئے اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ (اقتباس)