بچے کی تربیت کے اہم اُصول

   

ماں کی گود کو بچے کی پہلی تربیت گاہ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد اس گھر کا ماحول بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا ہے۔ ماں، باپ اور گھر کے دوسرے افراد کی شخصیت اور رویئے بچے کی عادت و اطوار کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ابتدائی عمر میں بچے کو اچھائی اور برائی کا شعور نہیں ہوتا۔امی ابو اور دادا دادی کی دیکھا دیکھی وہ گھر میں پھوپھو اور چچی وغیرہ کو بعض اوقات ان کے نام سے پکارتا ہے۔سب سے پہلے بچے والدین کے عمل پر غور کرتے ہیں اور پھر ان کی تقلید کرتے ہوئے وہی کچھ کرتے ہیں۔اس کے بعد دوسرے مرحلے میں بچے والدین کے انداز گفتگو سے سیکھنا شروع کرتے ہیں۔بعض بچے جلدی بولنا شروع کر دیتے ہیں اور بعض دیر سے۔بعض بچوں کے الفاظ بالکل واضح جبکہ کئی بچے تو تلا کر بات کرتے ہیں۔بچے کے بولنے کا یہ عمل فطری ہوتا ہے۔جو بچے دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں ان کے بارے میں اکثر والدین فکر مند ہوتے ہیں کہ شاید ان کا بچہ بول نہیں سکتا ۔ چھوٹے بچے خواہ جلدی بولیں یا دیر سے وہ اطراف کی ہر چیز کا شعور رکھتے ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنی بات والدین کو سمجھانا چاہتے ہیں۔وہ تیز رنگوں اور حرکت کرتی ہوئی چیزوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔بعض والدین لاڈ میں اپنے بچوں سے توتلی زبان میں بات کرکے خوش ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ بچے کا لہجہ خراب کرنے کی غلطی کر رہے ہوتے ہیں۔انہیں توتلی زبان میں والدین خصوصاً ماؤں کے بولے جانے والے الفاظ سمجھ نہیں آتے۔لہٰذا وہ بھی اسی طرح بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔والد کے ڈیوٹی پر جانے کے بعد بچے کا زیادہ وقت گھر میں ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔وہ اردگرد چیزیں دیکھ کر ان کے بارے میں کئی سوال اپنی ماں سے کرتا ہے۔اکثر مائیں گھر کے کام کرنے یا کھانا پکانے میں مصروف ہوتی ہیں۔وہ بچوں کے سوالوں کو نظر انداز کرتی ہیں یا ان کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتیں۔بعض اوقات بچوں کے سوالوں سے تنگ آ کر وہ یا تو انہیں اپنا موبائل فون دے دیتی ہیں یا ٹیلی ویڑن کھول کر انہیں اس کے سامنے بیٹھا دیتی ہیں۔بچے کے سوال اس کے ذہن میں ہی رہتے ہیں اور وہ موبائل فون پر گیمز یا ٹیلی ویڑن پر نا سمجھ میں آنے والے پروگرام اور کارٹون وغیرہ دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔یہ چیزیں اس کے معصوم ذہن پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ماں کی طرف سے نظر انداز کرنے کے باعث بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ان رویوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد مستقل میں وہ بھی یہی رویہ اپناتے ہیں۔لہٰذا بچوں کی شخصیت کی مثبت تعمیر کیلئے ضروری ہے کہ ان کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے ذہن میں اْٹھنے والے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیں۔انہیں سوال کرنے کی عادت ڈالیں‘ان سے خود بھی ہلکے پھلکے سوالات پوچھیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں سوال کرنے کے اخلاقیات بھی سکھائیں۔