بھارت جوڑو یاترا راہول گاندھی کو ایک سنجیدہ سیاست داں کے طورپر ابھارے گی۔ تجزیہ کار

,

   

مذکورہ مارچ بی جے پی اوراس کی برانڈ سیاست کی مخالف کرنے والے لوگوں کومتحد ہ کرنے میں کلیدی کردار اداکریگی۔
بھوپال۔کانگریس سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ احساس ہے کہ راہول گاندپی کی بھارت جوڑو یاترا اس کانگریس ایم پی کو ایک سنجیدہ سیاست داں کے طور پر ابھارے گی اور انہیں ایک مضبوط سیاسی حریف بی جے پی کے مقابلے کے لئے طاقت فراہم کریگی۔

لیکن ان کا مشاہدہ ہے کہ ملک بھر میں مارچ کے دیرپااثر چھوڑنے کے لئے مخصوص مسائل پرتوجہہ مرکوزکرنی چاہئے تھی۔ کانگریس کی 3570کیلو میٹر کی پیدل یاترا 7ستمبر کے روز تاملناڈو سے شروع ہوئی تھی‘ اور نومبر7کے روز مہارشٹرا میں داخل ہوئی تھی۔

گاندھی کی قیادت والی یاترا 20نومبر کے روز مدھیہ پردیش کے ضلع برہان پور میں داخل ہونے کیساتھ اپنی نصف یاترا کو مکمل کرلے گی۔کانگریس پارٹی کو زندہ کرنا‘دوبارہ احیاء عمل میں لانا اور پھر متحرک کرنا کے لئے بڑے پیمانے پر عوام تک رسائی اس پروگرام کامقصد ہے۔

حالانکہ مدھیہ پردیش کانگریس صدر کمل ناتھ ریاست میں یاترا کی تیاریاں دیکھ رہے ہیں‘ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اتحاد کی یہ یاترا کا راستہ پارٹی کی کمزوری یاطاقت کی بنیاد پر نہیں کیاگیا ہے‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے ملک پر طویل مدتی سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔

سابق یونین منسٹر اسلم شیرخان نے پی ٹی ائی کو بتایاکہ”مذکورہ یاترا کا بڑے پیمانے پر ہندوستان کی سیاست میں اثر پڑیگا اور یہ وزیراعظم نریندر مودی کے مقابلہ میں راہول گاندھی کوایک غیرسنجیدہ سیاست داں کے طور پر آر ایس ایس/بی جے پی کی جانب سے پیش کرنے کے عمل کو اثر دار طریقے سے کچل دیگا“۔

ہندوستان کے ایک سابق ہاکی کھلاڑی اور اولمپین نے اب بھی یہی کہنا ہے کہ یاترا کانگریس کو بھارتیہ جنتا پارٹی او رآ ر ایس ایس کی جانب سے کی جارہی نفرت او رتقسیم کی سیاست کے خلاف میں آگے لے جانے کاکام کریگی۔

مذکورہ بی جے پی نے مدھیہ پردیش میں یاترا کا مذاق اڑاتے ہوئے کہاکہ کنیا کماری سے جب یہ مارچ کی شروعات ہوئی ہے کئی قائدین نے پارٹی چھوڑ دی ہے اسی وجہہ سے یہ ایک ”کانگریس چھوڑو یاترا“ ہے۔

خان نے کہاکہ گاندھی(52) نے کانگریس قائدین کے بے پناہ دباؤ کے باوجود گاندھی خاندان کو پارٹی صدر کے سب سے طاقتور عہدے سے دور رکھنے کے اپنے الفاظ پر قائم رہتے ہوئے خود کو ”ایک سنجیدہ“ سیاست داں کے طور پر ثابت کردیاہے۔

سابق اولمپین نے کہاکہ ”پارٹی صدراتی الیکشن کو جمہوری انداز میں یقین بناتے یوئے راہول گاندھی نے ثابت کردیاکہ ہندوستان کی سیاست میں ایک طویک اننگ کے ساتھ وہ ایک سنجیدہ سیاست داں ہیں“۔

اسی طرح کی ایک یاترا 1990میں لال کرشنا اڈوانی نے نکالی تھی جس کو رتھ یاترا کے نام سے یاد کیاجاتا ہے تاکہ لوگو ں میں شعور بیدار کیاجاسکے۔

ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ ”کانگریس پارٹی کو چاہئے کہ وہ فرقہ واریت اورنفرت کے خاتمہ جیسے خاص موضوعات پر توجہہ دے۔ جس سے پارٹی کو بھرپور فائدہ ہوسکتا ہے اورعام شہریوں سے اس پر زبردست ردعمل حاصل ہوسکتا ہے“۔

انہوں نے کہاکہ 2014کے انتخابات کے بعد لوک سبھا میں بی جے پی کے بھر پور اکثریت میں مرکز میں اقتدار پر آنے کی وجہہ سے ملک میں سیاست رحجان ”بائیں سے مرکز اور دائیں سے مرکز“ کی طرف تبدیل ہوا ہے۔

مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے سینئر لیڈر نروتم مشرا نے کہنا تھا کہ کانگریس بکھر ی ہوئی ہے اور اس کے 36سے زائد لیڈران نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔

بتایاجارہا ہے کہ کانگریس لیڈر مدھیہ پردیش میں اپنی پدیاترا کے دوران ضلع اندور کے مہاؤ میں بی آر امبیڈ کر کے آبائی گاؤں کو جائیں گے اس کے علاوہ ضلع کھانڈوا کے پندھانا تحصیل میں مشہور قبائیلی لیڈر تانیا بھیل کے پیدائش کے مقام پر بھی جائیں گے۔

مدھیہ پردیش میں کانگریس کارکنان 20نومبر کے روز گاندھی کی یاترا کا خیرمقدم کرنے کے لئے بڑی پیمانے پر تیاریاں کررہے ہیں اور اس یاترا کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہاں پر ایک کے اندر اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں