’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ وقت کا تقاضہ

   

رام پنیانی
انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت ہے۔ اس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے 7 ستمبر سے بھارت جوڑو یاترا شروع کی ہے۔ کنیا کماری سے انہوں نے اپنی یاترا کا آغاز کیا ہے جو 3,500 کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے کشمیر پہنچے گی اور 12 ریاستوں و دو مرکزی زیرانتظام علاقوں سے ہوکر گذرے گی۔ اگرچہ یہ یاترا انتخابات میں حصہ لینے والی ایک تنظیم (کانگریس) نے نکالی ہے، لیکن تقریباً ایسے 200 سماجی جہدکاروں نے راہول گاندھی سے اس یاترا کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے جو ملک کی موجودہ صورتحال کو لے کر پریشان ہیں اور اُمید ہے کہ ان سماجی جہدکاروں کی تنظیمیں بھی 150 دنوں تک جاری رہنے والی اس یاترا میں شامل ہوجائیں گی۔ یہ ایسے سماجی جہدکار ہیں جن کو انتخابی سیاست سے کوئی راست دلچسپی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یوگیندر یادو ایک ممتاز سماجی جہدکاراور سوراج انڈیا کے سربراہ ہیں۔ آج ہمارے ملک میں کسانوں، مزدوروں، دلتوں اور قبائل کی حالت ِزار ہے (پتہ نہیں یوگیندر یادو نے اس معاملے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو کیوں فراموش کردیا)۔ وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ان طبقات نے ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اب انہیں ملک کا مستقبل سنوارنے سے روکا جارہا ہے۔ یوگیندر یادو اگر دیکھا جائے تو اصل میں آج کی مایوس کن صورتحال یاد دلاتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے میں مصروف ہیں۔ یہاں تک جب واجپائی کی قیادت میں بی جے پی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ کئی سماجی جہدکاروں نے جو اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں، اس حقیقت کو جان لیا کہ بی جے پی بالکل مختلف ہے اور جب بی جے پی اکثریت میں نہیں تھی تب بھی اس نے یہ ظاہر کردیا تھا کہ وہ ایک مختلف قسم کی سیاسی جماعت ہے اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم اور اس کا ایک حصہ ہونے کے ناطے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اسے نافذ کرانے کیلئے پابند عہد ہے۔ اس کا ایجنڈہ نہ صرف ہندوتوا ایجنڈہ کو آگے بڑھانا بلکہ ہندوستانی قوم پرستی کے مقابلے ہندو قوم پرستی کو آگے بڑھانا اسے لاگو کرنا ہے۔ ایک اور بات خاص طور پر نوٹ کی جاسکتی ہے کہ واجپائی کے دور اور اب موجودہ حکومت میں بی جے پی نے تعلیم سے متعلق جو پالیسی اپنائی ہے یعنی تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی پالیسی اس کے تحت آر ایس ایس شاکھاؤں (شاخوں) کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ اقلیتوں کے جذبات کو برسرعام مجروح کیا جارہا ہے۔ ہر لحاظ سے انہیں ستایا، دھمکایا جارہا ہے، پہلے عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا (1999ء میں گراہم اسٹینس جیسے عیسائی مبلغ اور ان کے دو کمسن بچوں کو نذرآتش کرنے کا اندوہناک واقعہ اس کی بدترین مثال ہے)۔ گراہم اسٹینس کو بجرنگ دل کے دارا سنگھ نے قتل کیا تھا۔ وہ دراصل جمہوری اقدار اور اقلیتوں کے حقوق کی مدافعت کرنے والوں کو ڈرانا، دھمکانا چاہتا تھا۔ گجرات فسادات بھی اقلیتوں میں ڈر و خوف کی لہر پیدا کرنے کی ایک کڑی تھی اور فرقہ وارانہ ظلم و جبر کی بدترین مثال بن گئے۔
بہرحال 2014ء میں بی جے پی کے مکمل اکثریت سے اقتدار پر واپسی کے ساتھ ہی این ڈی اے (قومی جمہوری اتحاد) محدود ہوکر رہ گیا اور بی جے پی، آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر شدت سے عمل آوری ہونے لگی اور جو ادارے جمہوریت کے تحفظ اس کی بقاء کیلئے قائم کئے گئے، ان اداروں کی بقاء کو خطرات پیدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے بڑی ہشیاری بلکہ مکاری کے ذریعہ دلتوں، قبائیلیوں، اور مذہبی اقلیتوں کے کچھ حصوں کے دل جیت لئے۔ افسوس کہ ہندوستانی دستوری کی قدر یا قومی اخوت و بھائی چارگی کو انتہائی نچلے درجہ تک پہنچا دیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں معاشی تفاوت بڑھتا جارہا ہے اور کئی لوگوں کے شہری حقوق صرف ایک رسمی کارروائی بن گئی ہے۔ بلقیس بانو کیس سے گرتی سماجی فکر کا اندازہ ہوتا ہے جہاں زانیوں اور قاتلوں کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ جیل سے باہر آنے پر ان کی گلپوشی کی گئی۔ ان کے پیر چھوئے گئے۔ ایسے جیسے کہ وہ بہت بڑا کام کرکے آئے ہوں۔ اس کے برعکس عمر خالد جیسے لوگ کمزور اور محروم طبقات کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں، یہ اچھا ہوا کہ خوش قسمتی سے تیستا سیتلواد کو ضمانت مل گئی۔ اگر ہم یاتراؤں کی بات کریں تو ہمارے ملک میں نکالی گئی یاتراؤں نے مختلف قسم کے کردار ادا کئے۔ کبھی مثبت تو کبھی منفی اس معاملے میں دو بڑی یاتراؤں کو یاد کیا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کی جانب سے نکالی گئیں ان دو یاتراؤں نے ہندوستانی معاشرہ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ڈانڈی مارچ مخالف نوآبادیات (انگریزوں کے خلاف) جدوجہد کی سمت ایک بہت بڑا قدام تھا۔ اس مارچ نے آزادی حاصل کرنے سے متعلق ہندوستانیوں کے حوصلوں کو بلند کیا اور ان میں سماجی اصلاحات کے ساتھ ساتھ مخالف انگریز جذبات و احساسات پیدا کئے اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ فرقہ پرست تنظیموں نے مہاتما گاندھی کے اس مارچ سے دُوری اختیار کرلی تھی۔ وہ مارچ ہندوستانیوں کو متحد کرنے ان کی ہندوستانی شناخت کو ذات پات اور مذہبی شناخت سے بالاتر بنانے کیلئے تھی۔ پھر گاندھی نے سماجی انصاف کیلئے امبیڈکر کی جدوجہد پر ردعمل کا اظہار کیا۔ مہاڈ تانک اور کالارام مندر ایجی ٹیشن کے بعد انہوں نے ذات پات اور چھوت چھات کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا۔ ان مسائل پر اس قدر سنجیدگی اختیار کی کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے بڑھتے قدم روک دیئے، جدوجہد کو معطل کردیا اور پھر 1933ء سے انہوں نے یاتراؤں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان یاتراؤں کا مقصد معاشرہ کو چھوت چھات اور ذات پات کی درجہ بندی سے پاک کرنا تھا۔ گاندھی کی ان کوششوں نے کافی حدتک ہندوستانیوں کو متحد کیا۔ کئی ایسی یاترائیں بھی ہیں جو سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے نکالی گئیں۔ مثال کے طور پر جگن موہن ریڈی کی یاترا، این ٹی آر کی یاترا (جو انہوں نے اقتدار میں واپسی کیلئے شروع کی تھی)۔ چندر شیکھر کی یاترا (جس کا مقصد ہندوستانیوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا) لیکن ہمارے ملک میں ایسی بھی یاترا نکالی گئی جس کے تخریبی اثرات مرتب ہوئے، لال کرشن اڈوانی کی اس یاترا نے منڈل کمیشن پر عمل آوری کے اثباتی کارروائی کے تناظر میں مقبولیت حاصل کی لیکن حقیقت میں اڈوانی کی یاترا کا مقصد مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنا تھا جس کا نتیجہ فرقہ وارانہ تشدد کی شکل میں نکلا۔ اڈوانی کی بی جے پی یاترا عملاً شہادت بابری مسجد کا باعث بنی۔ اس کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ اور تخریبی سیاست کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ گزشتہ 8 برسوں سے تو یہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔