بھوک کے زمرے میں ہندوستان پہنچا 102نمبر پر‘ پاکستان سے 8نمبر نیچے

,

   

دنیا کے117ممالک میں ہندوستان عالمی بھوک کے فہرست میں 102ویں مقام پر پہنچ گیا ہے‘ ہندوستان جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے کم درجہ پر تھا (ماباقی ممالک کے نمبر93اور 66کے درمیان میں رہا ہے)اور دوسرے بریکس ممالک میں‘ مذکورہ سب سے نچلے مقام پر ساوتھ افریقہ ہے جو59ویں نمبر پر ہے۔

مستحکم بہتری کے بعد ہندوستان کا رینک2015سے ہٹا ہے جب اس کا نمبر93تھا۔ یہا ں تک کہ پاکستان جو جنوبی ایشیاء میں درجہ بندی کرنے والا واحدملک تھا‘ وہ 2019کی فہرست میں 94ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔

مذکورہ جی ایچ ائی اسکور2014سے 2018کی تفصیلات کی جو عکاسی کرتا ہے اس کی بنیاد ایک ملک میں بچوں کی غدائیت پر مبنی ہے‘جو پانچ سال کے اندر کے بچوں کو شامل کرتا ہے جس کی وزیر ان کے قد کے مطابق کم ہوتا ہے اور پانچ سال کی عمر کے بچوں میں اموات کی شرح پر مشتمل ہوتا ہے۔

انڈیکس پر رپورٹ میں بیان کیاگیا ہے کہ ”بڑے آبادی ہونے کی وجہہ سے‘ ہندوستان جی ایچ ائی انڈیکٹر اقدار علاقے کے انڈیکٹر اقدار پر اثر انداز ہونے سے باہر چلی گئی ہے۔

ہندوستان کے بچوں کی ضیائی شرح سب سے اونچی یعنی20.8فیصد ہے۔ اس رپورٹ میں کسی بھی ملک میں یہ سب سے زیادہ ہے“۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کا خراب اسکور اس کو ساوتھ ایشیاء میں نیچے کھینچ رہا ہے جو ایک مقام پر صحرائی افریقے سے بھی بدتر ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 6سے 23ماہ کے بچوں کے درمیان ہندوستان میں کم سے کم قابل قبول کھانا کی فراہمی کی شرح 9.6فیصد ہے (مرکزی وزرات صحت کے ایک حالیہ سروے میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ اس سے بھی کم ہے جس میں 6.4فیصد کاذکر کیاگیا ہے)۔اس جی ایچ ائی رپورٹ میں بنگلہ دیش کی جانب سے تیار کی گئی ترقی کی ستائش کی گئی ہے۔

اس میں ”مضبوط معاشی نمو اور غدائیت کے متعلق توجہہ‘ تعلیم اور صفائی جیسے شعبہ جات میں اور صحت کے معاملات کو بھی“ اس سے منصوب کیاگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2000کے بعد سے نیپال میں بڑے پیمانے پر تناسب کی تبدیلی دیکھائی ہے‘ جس نے گھریلو اثاثوں میں اضافہ کو شامل کیاہے‘ زچگی کے متعلق تعلیم‘ صفائی کے انتظامات میں بہتری‘ صحت او رغدائیت کے پروگراموں کا نفاذ‘ پیدائش سے قبل اور نومولود کی دیکھ بھال جیسے پروگرام بھی اس میں شامل ہیں۔

ہندوستان کا اسکور30.3ہے جس کی وجہہ سے شدید بھوک کے زمرے میں اس کو شامل کیاگیاہے۔

اس میں چار ایسے ممالک ہیں جہاں پر حساس بھوک کے زمرے میں شامل کیاگیا ہے اور مرکزی افریقی جمہوری میں سب سے زیادہ بھوک کے زمرے کی حساسیت کو بیان کیاگیاہے۔

تبدیلی موسم کو بھی اس سے منسوب کرتے ہوئے دنیا کے سب سے کمزور خطوں میں لوگوں کو کھانے کے پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر اس رپورٹ میں کیاگیا ہے