بھینسہ میں حالات ٹھیک لیکن مسلمانوں میں خوف اور بے چینی کا ماحول

,

   

بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر برقعہ پوش خواتین اشکبار، دونوں ہاتھوں سے معذور مسلم شخص بھی محروس

بھینسہ؍حیدرآباد۔/15جنوری، (سیاست نیوز) بھینسہ شہر میں پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد واقعہ کے بعد حالات پرامن اور قابو میں ہیں۔ لیکن محکمہ پولیس پولیس کی جانب سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا آغاز کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے شہر کے مسلمانوں میں کافی بے چینی اور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے شہر کے عام مسلمان تلنگانہ وزیر داخلہ محمد محمود علی کو اس جانب متوجہ ہوکر بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری کو روکنے کا مطالبہ کیا۔جبکہ گزشتہ روز شہر کے کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے پر آج صبح کے اوقات میں برقعہ پوش مسلم خواتین پولیس اسٹیشن کے باہر اشکبار ہوکر بے بسی و لاچاری کے عالم میں افسردہ بیٹھے ہوئے دیکھے گئے اور کچھ مسلم خواتین و افراد نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے معصوم نابالغ بچوں اور دوسرے مقامات سے اپنے مقام واپس مکان کو لوٹنے کے دوران اور اشیائے ضروریہ کی خریدی کے علاوہ کسی کام کی غرض سے مکان کے باہر نکلنے پر بھی پولیس بے قصور لڑکوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن منتقل کیا جبکہ کئی مسلم خواتین نے بتایا کہ لڑکوں کے گرفتار ہونے کا افراد خاندان کو بھی علم نہیں ہورہا ہے کیونکہ لڑکے اور مرد مسلمانوں کو راستے میں ہی گرفتار کرنے کا پولیس پر الزام عائد کیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ شہر کے مومنان گلی علاقہ کے متوطن محمد لئیق جو اپنے دونوں ہاتھوں سے مکمل طور پر معذور ہیں جن کو پولیس نے گرفتار کرلیا جس کی وجہ سے بھینسہ میں پولیس کے رویہ سے مسلمانوں میں کافی بے چینی اور خوف و دہشت پائی جارہی ہے۔ آج صبح کے اوقات میں گرفتار شدہ مسلم لڑکوں اور افراد خاندان سے ملاقات اور بات چیت کیلئے پہنچے مسلم برقعہ پوش خواتین

اور افراد خاندا ن بھی پولیس اسٹیشن کی گیٹ کے باہر منتظر دیکھے گئے لیکن پولیس نے تقریباً 20 سے زائد مسلم افراد بشمول دونوں ہاتھوں سے معذورمحمد لئیق کو پولیس بس کے ذریعہ ریمانڈ کردیا۔ پولیس کی جانب سے مزید بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تاحال بھینسہ میں حالات پُرامن اور قابو میں ہیں لیکن پولیس کے اعلیٰ عہدیداران جن میں آئی جی ناگی ریڈی، آئی جی و انچارج ڈی آئی جی پرمود کمار کے علاوہ ضلع ایس پی نرمل ششی دھر کے علاوہ دیگر مقامات کے ایس پیز اور دیگر عہدیداران کیمپ کئے ہوئے ہیں اور شہر میں تقریباً ایک ہزار سے زائد پولیس جوانوں کے علاوہ 200 ریاپڈ ایکشن فورس جوانوں اور وجرا گاڑیوں کو متعین کرتے ہوئے شہر کے اہم چوراہوں ، حساس مقامات، مذہبی مقامات پر پولیس پکیٹس کو تعینات کرتے ہوئے پولیس طلایہ گردی کے علاوہ شہر میں صبح اور شام کے اوقات میں پولیس اعلیٰ عہدیداران کی نگرانی میں ریاپڈ ایکشن فورس اور نیم فوجی دستوں کو گشت کروایا جارہا ہے اور صبح تقریباً11 بجے کے بعد پولیس کی جانب سے شہر کے تمام چھوٹے بڑے کاروباری اور تجارتی دکانوں کو بند کروایا گیا۔ شہر میں تمام مارکٹ و کاروباری ادارے بند ہونے کی وجہ سے سڑکیں سنسان اور ویران نظر آرہی ہیں۔ جبکہ مارکٹ بند رہنے کی وجہ عام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئی کیونکہ صبح کے اوقات میں ہی عوام کو اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ شہر میں پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران مسجد مومنان پر بھی سنگباری کے واقعات پیش آئے تھے جس کی شکایت پولیس میں درج کروانے کے کچھ ہی گھنٹے بعد مسجد مومنان انتظامی کمیٹی صدر محمد ذاکر کو بھی پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے آج ریمانڈ کیلئے منتقل کردیا جبکہ مسجد مومنان کمیٹی صدر محمد ذاکر نے بھی پولیس اسٹیشن پہنچ کر شکایت درج کروائی۔ بھینسہ میں تشدد میں متاثرہ علاقوں کا آج رکن اسمبلی جی وٹھل ریڈی نے دورہ کیا اور تمام حالات کا جائزہ لیتے ہوئے متاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے واقفیت حاصل کی۔ اس موقع پر تمام متاثرین کو حکومت کی جانب سے امداد فراہم کرنے کا تیقن دیا ۔ اس موقع پر عہدیداران اور دیگر موجود تھے۔ بھینسہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے تیسرے روز بھی انٹرنیٹ سرویس مکمل طور پر معطل رہی۔ تاحال بھینسہ میں دونوں طبقوں کے 70 سے زائد افراد کو پولیس نے گرفتار کرلیا اور دفعہ 144 برقرار ہے۔