بہار میں ”غلط ہورہی چیزوں“ کا انکشاف کرنے جیل جانے کا راستہ ہے‘ یہی معاملہ پپو یادو کا ہے

,

   

پٹنہ۔ راجیش رنجن عرف پاپو یادو کے معاملے کو حوالہ دیتے ہوئے جن ادھیکار پارٹی قائدین نے کہاکہ بہار کو کویڈ 19کی دوسری لہر میں خراب انفرسٹکچر کے ساتھ ریاستی حکومت اور اثر والے لوگوں کی ”غلط کاموں“ کو انکشاف کررہے ہیں انہیں بھاری قیمت ادا کرنے کے لئے یاد رکھا جائے گا

۔ ان کے پارٹی قائدین نے کہاکہ چار مرتبہ سے رکن پارلیمنٹ رہے فرد چاہتے ہیں کہ مضافاتی علاقوں سے ریاست کی درالحکومت کے ملٹی اسپیشالیٹی اسپتالوں میں جاری نااہلی او ربے ضابطگیوں پردہ فاش کریں مگر تیس سال پرانے اغوا معاملے میں انہیں جیل بھیج دیاگیاہے۔

مئی7کے رو ز جب بہار میں بڑے پیمانے پر کویڈ کے معاملات رونما ہوئے اور ایمبولینس اپریٹرس پرٹوکالس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے‘ یادو نے ساران ضلع میں امانور بلاک کے ایک پلاٹ پر رکھی ہوئی39ایمبولنس گاڑیوں کی حقیقت عوام کے سامنے لائی تھیں۔

یہ ایمبولینس 2019میں ایم پی ایل اے ڈی فنڈ سے خریدی گئی تھیں بی جے پی رکن پارلیمنٹ راجیو پرتاب روڈی کے ایک رشتہ دار کے پلاٹ پر اس کو رکھا گیاتھا‘ جس کا نام ہر ایک گاڑی پر لکھا بھی ہے

YouTube video

جے اے پی کے قومی جنرل سکریٹری پریم چند سنگھ نے کہاکہ ”کیونکہ وہ بی جے پی کے ایک بااثر رکن پارلیمنٹ کا ایسے وقت میں پردہ فاش کیاتھا جب وبا ء سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی اور بہار چیف منسٹر نتیش کمار پر کئی سوالات کھڑے کئے جارہے تھے‘میرے لیڈر کو ایک32سال پرانے اغوا کے معاملے میں گرفتار کیاگیاہے جس سے متاثرین نے انکار کیاتھا“۔

یہاں تک کہ 1989کے اس کیس میں جب پپو یادو جیل میں تھے”اغوا کئے گئے افراد میں سے“ ایک جس کا نام رام کمار یادو ہے میڈیا کے سامنے آیا او رکہاکہ یہ ایک الجھن کا معاملہ ہے۔انہوں نے 1989میں کہاتھاکہ وہ اور اوماکانت یادو دراصل پپو یادو کے بہت قریبی ساتھی تھے مگر ایک لڑکی کی شادی کے بعد ان کے درمیان میں تنازعہ پیدا ہوگیاتھا۔

راج کمار یادو نے کہا کہ پھر کے رشتہ کے بھائی شیلیندر یادو نے جنوری 1989میں پپو یادو کے خلاف مادھی پورا میں مرلی گنج پولیس اسٹیشن پہنچ کر ایک شکایت درج کرائی اور الزام لگایاکہ انہوں نے اوماکانت او رراج کمار کا اغوا کرلیاہے۔

اس کا کہناتھا کہ”پپو یادو کی گاڑی کے اندر میں اور اوما کانت بیٹھے تھے‘ کچھ گھنٹوں بعد ہم پپو یادو کے گھر سے باہر ائے اور مادھی پورا پہنچے۔ ابتداء میں ہمیں لگاتھا کہ ہم اغو ا ہوگئے ہیں۔یہ معاملے کسی الجھن سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔

جے پی لیڈر سنگھ کے بموجب”اس نام نہاد اغواء کے سارے قانونی پہلو نہایت افسوس ناک ہیں۔

اس کیس میں پپو یادو کی 1989میں گرفتاری عمل میں ائی۔ قانونی مشق کے مطابق پولیس نے ایف ائی آر درج کرنے کے 90دنوں بعد چارج شیٹ داخل کرنا تھا۔ مادھی پور پولیس چارج شیٹ دائر کرنے سے قاصر رہی اور انہیں ضمانت مل گئی۔

سال1993میں پپو یادو کی ضمانت کو مادھی پور ضلع عدالت نے منسوخ کردیامگر ضلع پولیس ان کی گرفتاری کا عدالت سے ورانٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی“۔

بعدازیں سی پی ائی ایم رکن اسمبلی اجیت سرکار کے قتل کے معاملے میں پپو یادو کی گرفتاری عمل میں ائی اور وہ 1999سے 2013تک جیل میں رہے۔ اس دوران مادھی پور پولیس نے 2009میں پپو یادو کی جائیداد کو شامل کرنے کی ایک رپورٹ مادھی پور پولیس نے داخل کی۔

سنگھ نے پوچھا کہ”میں بہار پولیس سے پوچھنا چاہتا ہو ں کہ وہ واضح کریں کیوں پپو یادو کے خلاف جاری وارنٹ کو حاصل کرنے میں وہ ناکام رہے۔ سال2013میں اجیت سرکاری کے قتل کے معاملے میں انہیں عدالت سے بری کردیاگیا۔

کیوں بہار پولیس نے انہیں اغوا ء کے معاملے پھر دوبارہ گرفتار نہیں کیا؟“۔جے اے پی ریاستی صدر راگھو ویندرا کشواہا نے ائی اے این ایس کو بتایاکہ”پپو یادو بہار میں ایک سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔

مادھی پور سے انہوں نے 2014میں پارلیمانی الیکشن جیتا اور مرکزی حکومت نے انہیں وائی تھریٹ سکیورٹی فراہم کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ ملک میں کسی بھی مقام پر وہ جاتے ہیں تو انہیں پولیس اور متعلقہ ضلع اور اس ضلع کے پولیس انتظامیہ کو جانکاری فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ وائی تھریٹ سکیورٹی جو چھ سی آر پی ایف جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے اس سے زائد سکیورٹی فراہم کرسکیں“۔

انہو ں نے پوچھا کہ”وہ مادھی پور گئے اور بہار کے دیگر اضلاعوں کا بھی دورہ کیا۔ وہ 2020کے اسمبلی انتخابات میں کھل کر مہم میں شامل ہوئے۔ کیوں ریاستی حکومت نے اس اغوا ء معاملے میں انہیں گرفتار نہیں کیا؟“۔

پپویادو کے وکیل وشال ٹھاکر نے کہاکہ ”اس32سال پرانے خودساختہ اغواء کیس میں 11افراد کے خلاف مقدمہ درج کیاگیاتھاجس میں سے چار لوگ بری کردئے گئے ہیں۔

پپو یادو او ردیگر ساتھ لوگوں جنھیں بہار پولیس نے مفرور قراردیاتھا۔اب آپ ہی فیصلہ کریں وہ کیسے ایک مفرور ہوسکتے ہیں؟“۔ سیاسی دشمن کا الزام لگاتے ہوئے ٹھاکر نے کہاکہ”جب وہ تہاڑ جیل میں قید تھے‘ تو بہار پولیس کے پاس ان کا ایڈریس نہیں تھا۔

وہ سال2014سے 2019تک رکن پارلیمنٹ رہے اور ان کا سرکاری بنگلہ مادھی پور‘پٹنہ او ردہلی میں تھا‘ تو پھر کیوں بہار پولیس نے انہیں مفرور قراردیاتھا۔

حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران متعدد مرتبہ وہ مادھی پور اور مرلی گنج پولیس اسٹیشن کے حدود میں آنے والے علاقوں کا دورہ کیاتھا جہاں پر اغوا ء کا یہ معاملہ درج ہے‘ کیوں انہیں گرفتار نہیں کیاگیا۔

اب پپو یادو کو اس کیس میں گرفتار کیاگیاہے۔ یہ واضح ہوگیاہے کہ وہ سیاسی دشمن کا شکار بنائے گئے ہیں اور حکومت اور برسراقتدار پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کی نااہلی او رغلط کاموں کا انکشاف کرنے کا ان سے بدلہ لیاجارہا ہے“۔