بہار پولیس عہدیدار کا تبصرہ

   

چھاؤں ہے تو تنہائی، دھوپ ہے تو سایہ ہے
زندگی کا یہ پہلو، اب سمجھ میں آیا ہے
بہار میں ایک پولیس عہدیدار کے تبصرہ پر عملا بھونچال کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ پٹنہ رینج کے ایس ایس پی نے پی ایف آئی ارکان کی گرفتاری سے متعلق ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ تنظیم بھی اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح آر ایس ایس کرتی ہے ۔ نوجوانوں کو راغب کیا جاتا ہے ۔ انہیں لاٹھی وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے اور ان کے ذہنوں کو ریاڈیکلائز کیا جاتا ہے ۔ ایس ایس پی کے اس تبصرہ نے بہار میں ایک طرح کا سیاسی بھونچال پیدا کردیا ہے ۔ بی جے پی کے قائدین اور دوسرے ہم خیال افراد اس پر شدید ناراض ہیں اور رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس عہدیدار کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس ایک محب وطن تنظیم ہے جبکہ پی ایف آئی کے ارکان خلاف قانون کارروائیوں میں ملوث ہیں ایسے میں دونوں کا تقابل نہیں کیا جاسکتا ۔ بہار کے پولیس عہدیدار نے کس تناظر میں یہ ریمارکس کئے ہیں یہ تو نہیں کہا جاسکتا تاہم یہ حقیقت ہے کہ وہ روانی میں آر ایس ایس کی سچائی کو بیان کر گئے ہیں۔ آر ایس ایس کی جانب سے ملک بھر میں شاکھائیں قائم کرتے ہوئے نوجوانوں اور اسکولی بچوں کو تک بھی لاٹھی چلانے کی اور کچھ مقامات پر تو ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے ۔ ان کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جاتا ہے ۔ انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے ۔ ان کے ذہنوں میں نت نئی باتیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس کی ملک بھر میں ہزاروں شاکھائیں کام کر رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی شاکھا کے قیام کیلئے یا وہاں پر چلنے والی سرگرمیوں کیلئے کوئی سرکاری اجازت نہیں حاصل کی جاتی ۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ آزادی کے پانچ دہوں تک بھی آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر کبھی ترنگا پرچم نہیں لہرایا گیا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ار ایس ایس کو ملنے والی فنڈنگ کے تعلق سے کوئی کچھ بھی نہیں جانتا ۔ یہ پتہ نہیں ہے کہ آر ایس ایس کو فنڈنگ کرنے والے کون لوگ ہیں۔ ہندوستان میں بھی فنڈنگ ہوتی ہوگی اور بیرونی ملک سے بھی فنڈنگ آتی ہوگی ۔
اس فنڈنگ کا ملک کے عوام کے سامنے کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کے کچھ قائدین اور اس سے وابستہ تنظیموں کے قائدین و ارکان کی جانب سے اکثر وبیشتر اشتعال انگیز بیان بازیاں کی جاتی ہیں ۔ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کی جانب سے ایک فوج تیار کی جا رہی ہے اور انہیں لاٹھی وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے ۔ جب ملک میں مسلح افواج موجود ہیں اور ہماری افواج انتہائی با صلاحیت اور دلیر ی و بہادری کیلئے جانی جاتی ہے اس کے باوجود خانگی تنظیم کی جانب سے فوج کی تیاری کا دعوی کیا جاتا ہے اور ہمارے نفاذ قانون کے ادارے اور ایجنسیاں اس تعلق سے کوئی کارروائی نہیں کرتیں اور نہ ہی آر ایس ایس سے کوئی وضاحت طلب کی جاتی ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں آر ایس ایس کی حمایت والے چیف منسٹرس برسر کار ہیں ان سے اس تنظیم کے خلاف کسی کارروائی یا وضاحت طلبی کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ تاثر عام ہے کہ آر ایس ایس کی جانب سے نوجوانوں اور اسکولی طلبا کے تک ذہن پراگندہ کئے جاتے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کے تعلق سے واہمات کا شکار کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں تعصب بھرا جاتا ہے ۔ ایک مخصوص نظریہ اور سوچ و فکر کو ان پر مسلط کیا جاتا ہے ۔ پھر انہیں پروان چڑھاتے ہوئے اہم عہدوں تک پہونچایا بھی جاتا ہے اور اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کیلئے انہیں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس تعلق سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔
آر ایس ایس قائدین کی جانب سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں جبکہ ہمارا دستور ہندوستان کو سکیولر ملک قرار دیتا ہے ۔ یہ خلاف دستور بیان بازیاں بھی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہتی ہیں۔ اس پر بھی کوئی سوال نہیں کیا جاتا ۔ پٹنہ کے ایس ایس پی نے جو بیان دیا ہے وہ ان کا اپنا ذاتی اور شخصی خیال ہوسکتا ہے تاہم یہ حقیقت سے بہت قریب بھی کہا جاسکتا ہے ۔ بات پی ایف آئی سے تقابل کی نہیں ہے بات آر ایس ایس کی جانب سے دی جانے والی تربیت کی ہے ۔ کسی گوشے کو پولیس عہدیدار کے بیان سے اختلاف ہوسکتا ہے اور کچھ گوشے اس خیال سے اتفاق نہیں بھی کرتے ہونگے ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہوسکتا ہے ۔