بہترین مدد اپنی مدد آپ

   

محمد مصطفی علی سروری

یہ سال 2008 کی بات ہے جب 15 سال کا محمد الاواس ایک ٹریفک حادثہ کا شکار ہوگیا۔ اس کو دواخانہ لے جایا گیا جہاں پر اس کی جان تو بچ گئی مگر جب اس کو دواخانے سے ڈسچارج کیا گیا تو وہ وھیل چیئر کا محتاج بن گیا تھا۔ حالانکہ ڈاکٹروں نے محمد الاواس کو بتلایا کہ اگر وہ چاہے تو بیرون ملک جاکر اپنا مزید علاج کرواسکتا ہے جس سے اس کو اپنے طور پر بغیر وھیل چیئر کے چلنے پھرنے میں سہولت ہوسکتی ہے مگر اس نوجوان کی معاشی حالت اتنی مستحکم نہیں تھی کہ وہ بیرون ملک جاکر علاج کرواسکے۔ اس صورتحال میں محمد الاواس نے ہمت نہیں ہاری اور طئے کیا کہ وہ کسی او رپر بوجھ نہیں بنے گا اور اپنی مدد آپ کرے گا۔ لیکن قارئین سونچنے والی بات یہ تھی کہ ایک وھیل چیئر کا محتاج نوجوان کر بھی کیا سکتا تھا۔ پہلے تو اس کو اپنی مدد آپ کرنی ہے، پھر اپنے علاج کے پیسے جمع کرنے ہیں۔ اس نوجوان نے صرف سونچنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وھیل چیئر پر بیٹھ کر سبزیاں اور پھل فروخت کرنا شروع کردیا۔ العربیہ نیٹ کے حوالے سے 19؍ مئی کو اردو نیوز جدہ نے اس نوجوان کے متعلق ایک خبر شائع کی جس کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ اس نوجوان کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ یہ نوجوان ریاض ریجن میں وھیل چیئر پر بیٹھ کر سبزیاں اور پھل فروخت کرتا ہے۔ رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ وہ روزانہ صبح سویرے گھر سے نکل کر ٹھوک مارکٹ سے پھل اور سبزیاں خرید کر لاتا ہے اور پھر رات دیر گئے تک ان کو بیچتا ہے۔

قارئین یہ سعودی نوجوان چاہتا ہے کہ وہ بیرون ملک اپنی جسمانی معذوری کا مکمل علاج کروائے۔ اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ اس کے ہاں اتنی رقم جمع ہوجائے کہ وہ جرمنی یا انڈیا جاکر اپنا علاج کروائے اور ایک مرتبہ پھر سے صحت مند زندگی گزارے۔ 27؍ برس کے اس سعودی نوجوان کے متعلق اردو نیوز نے لکھا کہ جب 12 سال قبل جب وہ حادثہ کا شکار ہوا تو ڈاکٹروں نے بتلایا کہ چلنے پھرنے میں مشکل ہوگی۔ اب وہ سبزیاں فروخت کر کے ایک جانب گھر چلانے کا بندوبست کر رہا ہے تو دوسری جانب علاج کے لیے رقم بھی جمع کر رہا ہے۔ الاواس کے حوالے سے بتلایا گیا کہ اس نے پہلے عوامی بازار سے سبزی بیچنا شروع کیا۔ اب وہ مارکٹ میں باقاعدہ ایک دوکان کرائے پر حاصل کیے ہوئے ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ اس کے مطابق یہ اچھا کاروبار ہے اور آمدنی بہت اچھی ہے۔محمد الاواس کے مطابق اگر آپ کے پاس عزم ہو تو آپ مسلسل جدو جہد کر کے تمام دشواریوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ کام کرنے والے کو سب لوگ پیار کرتے ہیں۔ (بحوالہ اردو نیوز ڈاٹ کام)
قارئین سعودی عرب دولت مند ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں پر بے شمار غیر ملکی لوگ بھی کام کر کے پیسے کماتے ہیں اور سعودی عرب سے دنیا بھر کے لوگوں کی بڑے پیمانے پر ہر طرح سے مدد بھی کی جاتی ہے۔ ایسے پس منظر میں ذرا اس سعودی نوجوان محمد الاواس کے بارے میں سوچیئے کہ اگر یہ نوجوان خود اپنے ہی برادران وطن کے آگے ہاتھ پھیلاتا یا کم سے کم مدد کی درخواست کردیتا تو کوئی نہ کوئی اس کی مدد ہی کردیتا مگر جن کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کا سبق پڑھایا گیا ہو وہ کیسے دوسروں سے مدد لیتے۔ہم ہندوستانی مسلمان آخر یہ سبق کیوں بھول گئے کہ اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔
لاک ڈائون کے دوران کھانے اور راشن کی تقسیم کے کام سے جڑے ایک صاحب خیر کے مطابق مسلمانوں میں محنت کے نظریہ کو عام کرنے اور مانگنے کی عادت کو دور کرنے کے لیے کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ان کے مطابق لاک ڈائون تو کام چوروں کے لیے ایک بہانہ بن گیا ہے۔ انہوں نے اخبار ٹائمز آف انڈیا 19؍ مئی کی ایک خبر کا تراشہ روانہ کیا اور غور کرنے کی دعوت دی۔ چرنجیوی کا تعلق یادادری ضلع بھونگیر سے ہے۔ اس نے ایم اے سوشیل ورک، یم فل – رورل ڈیولپمنٹ کے علاوہ بی ایڈ کا بھی کورس کیا ہے۔ وہ پچھلے 12برسوں سے ایک خانگی اسکول میں بطور ٹیچر کام کر رہا ہے۔ اس کے دو بچے ہیں جو کنڈر گارٹن میں پڑھتے ہیں۔ اس کی بیوی کا نام پدما ہے وہ بھی ایم بی اے کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری پاس ہے۔ اور اسکول میں ٹیچر کی خدمات انجام دیتی ہے۔ کرونا وائرس کی وباء کے پیش نظر جب ملک گیر سطح پر لاک ڈائون کا اعلان ہوا تو ان کو مارچ 2020 کی تنخواہ تو ملی لیکن اپریل سے یہ دونوں میاں بیوی تنخواہ سے محروم ہیں۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان کے گھر میں چرنجیوی کے بوڑھے مانباپ بھی رہتے ہیں اور دونوں میاں بیوی کی ماہانہ تنخواہ ملاکر 60 ہزار روپئے ہوجاتے تھے جس سے ان کا گذارہ آسان ہوتا تھا لیکن اپریل کے مہینے میں ان میاں بیوی کی تنخواہ اچانک صفر ہوگئی لیکن گھر کے اخراجات بدستور برقرار تھے۔ ایسے میں چرنجیوی نے کوشش کی کہ تلنگانہ حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے 1500 روپئے مل جائیں لیکن سفید راشن کارڈ رکھنے کے باوجود چرنجیوی کو نہ تو راشن ہی ملا اور نہ نقد رقم۔ لاک ڈائون کے شروع میں مقامی لیڈروں کی جانب سے راشن کی تقسیم کیا گیا اس سے چرنجیوی کو تھوڑی سہولت ہوئی مگر بعد میں لیڈر کے ہاں بھی اتنا ہجوم آنے لگا کہ سب کو راشن نہیں ملا۔ ایسے میں چرنجیوی اور اس کی بیوی پدما نے بطور مزدور کام کرنا شروع کردیا۔ جی ہاں قارئین ایم فل اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں رکھنے والا چرنجیوی اور اس کی پوسٹ گریجویٹ بیوی پدما نے تعمیراتی کاموں میں مزدور کی حیثیت سے ہاتھ بٹانا شروع کردیا تاکہ اپنی مدد آپ کرسکیں اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔
ایم جئے رام گذشتہ آٹھ برسوں سے بطور سوشیل اسٹڈیز ٹیچر ایک خانگی اسکول میں برسرکار تھا لیکن لاک ڈائون میں اسکولس بند ہوجانے کے سبب اس کو تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ ایسے میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ یومیہ 300 روپیوں کی اجرت پر کام کرنا شروع کردیا ہے تاکہ اس کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے۔ (بحوالہ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا۔ نروپاپاوا ٹیم کی رپورٹ)
نشانت کے مطابق محنت کر کے کمانے سے کسی کو بھی نہ تو شرمانا چاہیے اور نہ ہی پیچھے ہٹنا چاہیے۔ اس نے بتلایا کہ پہلے وہ ایک ہوٹل میں بھی کام کرتا تھا اور صبح 6 بجے سے 7 بجے کے درمیان لوگوں کی کاروں کو دھونے کا بھی کام کرتا تھا اور ایک کار دھونے پر اس کو 50 روپئے ملا کرتے تھے۔قارئین ایسی سینکڑوں مثالیں آج کی دنیا میں ہمارے اطراف و اکناف موجود ہیں اور یہ مثالیں صرف سمجھانے کے لیے دی جاتی ہیں کاش کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے۔ پیسے والا بننے کے لیے صرف خواہش رکھنے سے کچھ ہونے والا نہیں۔ پیسوں کی چاہت میں پیسوں کے خواب دیکھنے سے بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے۔
محنت ہی وہ راستہ ہے جس پر چلنا ہوگا۔ بیرون ملک دروازے بند ہوجائیں تو اپنے ملک، اپنی ہی ریاست میں کام کرنا ہوگا۔ کام کرنے کے لیے اپنی مرضی اپنے موافق حالات نہیں ہوتے۔ جو کام لینے والا ہے اس کی مرضی اور اس کے حساب سے کام کرنا ضروری ہے۔اگر لاک ڈائون کے دوران ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا تو آج کی تاریخ میں ہم سے بڑا خوش قسمت کوئی نہیں ہے۔ لاک ڈائون نے ثابت کیا کہ بغیر حلیم کھائے بھی رمضان کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ لاک ڈائون نے ثابت کیا کہ بغیر ہوٹلوں کا کھائے بھی روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ آیئے اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں، جس نے ہمیں اس وبا کے دوران بھی پیٹ بھر کھانا نصیب کیا۔ ورنہ ذرا ان لاکھوں لوگوں کی طرف ضرور دیکھئے گا جو نوکری سے روزگار سے محروم ہونے کے بعد کیسے سڑکوں پر لاچار، بے یار و مددگار تپتی دھوپ اور موسم کی گرمی میں دو وقت کی روٹی کے لیے قطار بناکر کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
آپ نے ان لوگوں کے حوصلوں کو دیکھا جو ٹرین نہ ملی تو بس کی کوشش کرے، بس نہ ملی تو سائیکل پر سفر شروع کردیا اور جب یہ بھی نہ ملی تو پیدل ہی چلنا شروع کردیا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے کسی کو نہ تو کچھ ملا ہے اور نہ ملے گا۔ اب مرضی آپ کی ہے۔ حالات کا رونا روتے رہیں یا حالات کا سامنا کرنا سیکھیں کیوں کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com