بی جے پی اجلاس تشہیر تک محدود

   

حیدرآباد میں بی جے پی کی قومی عاملہ کا دو روزہ اجلاس آج اختتام کو پہونچا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ اور کئی ریاستوں کے چیف منسٹروں ‘ مرکزی وزراء اور دوسروں نے اجلاس میں شرکت کی ۔ بی جے پی نے دعوی کیا ہے کہ اس نے کئی اہم امور پر اجلاس میں تبادلہ خیال کیا ہے اور آئندہ چالیس برس تک اقتدار پر برقرار رہنے کا اسے یقین ہے ۔ تاہم یہ اجلاس صرف ضابطہ کی کارروائی ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں جو سرگرمیاں ہوئی ہیں وہ کوئی زیادہ اہمیت کی حامل نہیں رہیں اور نہ ہی کسی اہم ایجنڈہ پر اس میں غور و خوض ہوا ۔ ایسا لگتا ہے کہ جنوبی ہند میں اپنے موقف کو مستحکم کرنے کے واحد مقصد کے تحت اور ٹی آر ایس کے خلاف محاذ آرائی کو ایک قدم آگے بڑھا نے کیلئے یہ اجلاس شہر میں منعقد کیا گیا اور اس کو تشہیری حربے کے طور پر ٹی آر ایس حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جہاں تک تشہیر کی بات ہے تو بی جے پی اس معاملہ میں ٹی آر ایس کو زیادہ ٹکر نہیں دے پائی ہے کیونکہ اجلاس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹی آر ایس نے اپنی تشہیر کا قبل از وقت ہی انتظام کرلیا تھا ۔ شہر کے بڑے ہورڈنگس ہوں کہ میٹرو ٹرین کے پلرس ہوں ‘ فلائی اوورس کے برجس ہوں یا پھر پوسٹر بازی ہو ‘اخبارات میں اشتہارات ہوں کہ کوئی اور ذریعہ ہو تشہیر کے معاملہ میں ٹی آر ایس نے بی جے پی کیلئے زیادہ گنجائش نہیں چھوڑی ۔ بی جے پی نے اپنے طور پر سوشیل میڈیا پر تشہیر کرتے ہوئے اپنے اجلاس کو کامیاب ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اجلاس میں کوئی خاص سیاسی امور ز یر بحث نہیں آئے ۔ صرف وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ بی جے پی آئندہ تیس تا چالیس سال تک اقتدار پر برقرار رہے گی ۔ اس سے قبل امیت شاہ نے کہا تھا کہ بی جے پی آئندہ پچاس برس تک حکمرانی کرے گی ۔ یہ در اصل آمرانہ سوچ اور روش کا نتیجہ ہے ۔ یہ ملک کے جمہوری نظام کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش ہے کیونکہ حکومت اور حکمرانی کا فیصلہ سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ملک کے عوام کرتے ہیں اور بی جے پی عوام کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
بی جے پی کی جانب سے تلنگانہ کی انتخابی سیاست کو گرمانے کے مقصد سے یہ اجلاس منعقد کیا گیا ۔ صرف تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت کو زوال کا شکار کرنے اور خود اقتدار حاصل کرنے کے خواب کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ صرف تشہیر بازی کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ بی جے پی حلقوں کی جانب سے کسی حکمت عملی کے تعین کے بغیر یا عوام کیلئے کسی طرح کے پروگرام کو پیش کئے بغیر صرف وزیراعظم کی آمد ‘وزیر داخلہ کی آمد یا پھر اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کی آمد کی تشہیر کا سہارا لیا گیا ۔ عوام کیلئے کوئی پروگرام پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی تلنگانہ کیلئے کسی جامع منصوبہ کا اعلان کیا گیا ۔ ریاستی حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے تنقیدیں ضرور کی گئی ہیں لیکن کسی متبادل کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ جس طرح ٹی آر ایس کی جانب سے اپنی اسکیمات اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی اسکیمات وغیرہ کا تقابل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس طرح کی کوئی کوشش بی جے پی نے نہیں کی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی مثال پیش کی ہے ۔ ٹی آر ایس کو شکست دینا بی جے پی کا ایک واحد نکاتی ایجنڈہ دکھائی دے رہا تھا اور تلنگانہ عوام میں موضوع بحث بننے کی کوشش کے طور پر حیدرآباد کا انتخاب کرتے ہوئے قومی عاملہ کا اجلاس منعقد کیا گیا ۔ پروگرام اور اس میں زیر بحث موضوعات یا مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے صرف مرکزی قائدین اور چیف منسٹروں کو مختلف مقامات کے دورے کروائے گئے ہیں۔
وقفہ وقفہ سے مرکزی قائدین اور وزراء ریاست کے دورے پہلے ہی سے کر رہے ہیں۔ قومی عاملہ اجلاس کے نام پر جو اجتماع کیا گیا ہے اس کا واحد مقصد بھی تلنگانہ عوام میں بی جے پی کو موضوع بحث بنانا ہی کہا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے بھی اپنی تقریر میں کسی اہم موضوع کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی تلنگانہ کیلئے کسی پروگرام کا اعلان کیا گیا ۔ تاہم جس طرح سے تین تا چار دہوں تک حکمرانی کی بات کی گئی ہے وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کی بجائے جمہوریت کا مذاق بنانے کی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے ۔ بحیثیت مجموعی بی جے پی قومی عاملہ اجلاس محض تشہیری حربہ تک محدود رہا جس کا بی جے پی کو کوئی خاص فائدہ نہیں مل پائیگا ۔