بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ شیئر میں معمولی فرق

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

کسی بھی الیکشن کے بعد اور خاص طور پر ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے بعد بہت شور مچ جاتا ہے، زبردست چیخ و پکار کی جاتی ہے جو کامیابی حاصل کرتے ہیں وہ بڑے پیمانے پر جشن مناتے ہیں۔ اس کے برعکس شکست سے دوچار سیاسی جماعتوں کے حامی پرزور انداز میں الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ بہر حال چار ریاستوں کے انتخابی نتائج کے بعد ماحول یقینا پُرسکون رہا۔اگرچہ یہ سیاسی جماعتوں کے بالغ النظر رویہ کا ثبوت ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرسکتے ہیں، اگر اس کا سلسلہ کانگریس کی جانب سے عدم توازن ہے تو یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔
آیئے! مجھے اپنی غلطی سے شروع کرنے دیجئے ، میں نے گذشتہ ہفتہ کے کالم میں پُرزور انداز میں کہا تھا کہ چھتیس گڈھ میں کانگریس کی لہر ہے اور وہاں کانگریس حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگی لیکن میں غلط تھا، چھتیس گڈھ میں بی جے پی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اس نے 54 نشستوں پر قبضہ کیا اور کانگریس 35 نشستوں تک محدود رہ گئی۔ کانگریس نے انتخابی مہم کی شروعات میں ہی دعویٰ کیا کہ ریاست میں اس کی حکومت برقرار رہے گی اور کانگریس کے اس دعویٰ کو اوپنین پولس اور ایگزٹ پولس میں بھی تسلیم کیا گیا اور میں نے بھی تسلیم کیا تھا کہ کانگریس چھتیس گڈھ میں اپنا اقتدار برقرار رکھے میں کامیاب ہوجائے گی اور میرا یہ تسلیم کرنا اس لئے تھا کہ میں نے بے شمار لوگوں سے اس ضمن میں بات چیت کی تھی لیکن جب نتائج منظرِ عام پر آئے تب سوائے بی جے پی کے تمام لوگ حیران رہ گئے۔ بعد میں یہ پتہ چلا کہ عام زمرہ ، ایس سی اور ایس ٹی امیدوار کیلئے محفوظ حلقوں میں کانگریس کے ووٹ شیئر میں کافی کمی آئی ہے۔ آپ کی اطلاع کیلئے یہ بتادوں کہ 2018 میں کانگریس نے جن 14 ایس ٹی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ان حلقوں میں اسے بی جے پی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ،اور اسی رجحان نے کانگریس کو چھتیس گڈھ میں اقتدار سے بیدخل کردیا۔
غیر متوقع نہیں تھا : آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے کالم میں پُرزور انداز میں کہا تھا کہ چھتیس گڈھ میں کانگریس اپنا اقتدار برقراررکھے گی لیکن میںنے راجھستان اور مدھیہ پردیش میں کامیابی سے متعلق کانگریس کے دعوؤں کو قبول نہیں کیا تھا۔ راجھستان میں اشوک گیہلوٹ کی حکومت نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کا لیکن حکومت مخالف لہر اس کے گلے کی ہڈی بن گئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ راجھستان اسمبلی انتخابات میں گیہلوٹ حکومت کے 17 وزراء اور 63 کانگریس ارکان اسمبلی کو عملاً شکست کا سامنا کرنا پڑا جو ان وزراء اور ارکان اسمبلی کے خلاف پائی جانے والی شدید ناراضگی اور برہمی کا واضح اشارہ ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو اشوک گیہلوٹ کی زیر قیادت کانگریس حکومت نے داخلی سروے کروائے اور متعدد مرتبہ چھان بین بھی کرلی کہ ریاست میں کانگریس کا کیا حال ہوگا، لیکن ان داخلی سروے میں حکومت کے خلاف کس قدر ناراضگی پائی جاتی تھی اس کا انکشاف نہیں کیا گیا۔ ویسے بھی راجھستان کے رائے دہندوں کی 1998 سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ کبھی کانگریس کو حکومت کیلئے منتخب کرتے ہیں تو کبھی بی جے پی کو اقتدار سونپا جاتا ہے۔ ہاں ! مدھیہ پردیش میں ہر طرف سے یہی کہا گیا اور یہی دیکھا گیا کہ شیو راج سنگھ چوہان کی حکومت بیشتر محاذوں پر ناکام رہی، اس پر بدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے، اس نے چند اسکیمات پر عمل آوری کی جس کے تحت فوائد راست استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں منتقل ہوئے خاص طور پر خواتین کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے۔ اس ضمن میں مبصرین ’’ لاڈلی بہنا ‘‘ اسکیم اور اس سے جڑی اسکیمات کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش ایک ایسی ریاست ہے جسے ہندوتوا کی لیباریٹری بھی کہا جاتا ہے جہاں آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیموں کی جڑیں گہرائی تک پیوست ہیں اور سنگھ کے لوگ وہاں بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ ایسے میں وہاں بی جے پی حکومت کے اقتدار کو اُکھاڑ پھینکنے کیلئے تنظیم کی سطح پر بڑے پیمانے کی کوششیں درکار تھیں اور کانگریس نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی، اس کے علاوہ بی جے پی نے ریاست میں مضبوط امیدواروں کو میدان میں اُتارا جن میں ارکان پارلیمنٹ اور مرکزی وزراء شامل تھے اس نے وقت کا بہتر طور پر استعمال کیا اور وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کار لایا جس کے نتیجہ میں بی جے پی کو زبردست فائدہ ہوا اور بی جے پی کو 163 نشستیں حاصل ہوئیں اور کانگریس صرف 55 نشستوں تک محدود ہوکر رہ گئی۔
جہاں تک ریاست تلنگانہ کی بات ہے میں نے ریاست میں بی آر ایس کے خلاف دیہی علاقوں میں لہر محسوس کی تھی اور میں نے اس بات کی پیش قیاسی کی تھی کہ تلنگانہ کے نتائج حیرت انگیز ہوں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے علیحدہ ریاست تلنگانہ حاصل کرنے کا کریڈٹ لیا اور اپنی حکومت میں عوامی بہبود کی کئی ایک اسکیمات شروع کیں‘ مثال کے طور پر کسانوں کے بینک اکاؤنٹس میں راست رقم پہنچانے کیلئے رعیتو بندھو اسکیم شروع کی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جانے لگا کہ ریاست تلنگانہ میں اقتدار صرف چار ( ایک ہی خاندان کے ) افراد کے ہاتھوں میں رہا۔ کے سی آر کی حکومت اور ان کے ارکان خاندان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ کے سی آر صرف اور صرف حیدرآباد کی ترقی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اوردیہی علاقوں کو نظرانداز کررہے ہیں۔ کے سی آر پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا کہ انہوں نے عوام کو خود سے دور رکھا ، عوام ہی نہیں بلکہ خود ان کی اپنی پارٹی کے لیڈروں اور وزراء کو بھی ملاقات کا موقع دینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ ان کی حکومت میں بیروزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، اور بیروزگاری نے کے سی آر حکومت کے خلاف لہر پیدا کی اور تکوگوڑہ میں جب کانگریس کی ریالی منعقد ہوئی اس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی اور اس ریالی میں حکومت مخالف لہر دیکھی گئی ، حیدرآباد میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ کانگریس قائدین خاص طور پر مرکزی قائدین نے محسوس کیا کہ ریاست میں کانگریس کیلئے حالات سازگار ہیں۔ آپ کو بتادوں کہ 16 ستمبر 2023 کو حیدرآباد میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تھا جبکہ اے ریونت ریڈی نے کے سی آر حکومت کے خلاف جارحانہ مہم چلائی جس کے باعث کانگریس کی جیت یقینی ہوئی۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کسی بھی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کی۔
انتہائی کم فرق : … تین ہندی ریاستوں میں شکست کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے ووٹ شیئر میں کوئی زیادہ کمی نہیں آئی۔ مثال کے طور پر چھتیس گڈھ میں بی جے پی کو جملہ 72,34,968 ووٹ ڈالے گئے جس میں اس کا ووٹ شیئر 46.27 فیصد رہا۔ کانگریس کے حق میں 66,02,556 ووٹ ڈالے گئے، اس طرح کانگریس کا ووٹ شیئر 42.23 فیصد رہا۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے حق میں 2,11,13,278 ووٹ ڈالے گئے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں بی جے پی کا ووٹ شیئر 48.55 فیصد رہا، اس کے برعکس کانگریس کے حق میں جملہ 1,75,54,353 ووٹ استعمال کئے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانگریس کا ووٹ شیئر40.40 فیصد رہا۔ راجھستان میں جملہ 1,65,23,568 ووٹ بی جے پی کے حق میں استعمال کئے گئے یعنی اس کا ووٹ شیئر41.69 فیصد رہا۔ کانگریس نے 1,56,66,731 ووٹ حاصل کئے اور اس کا ووٹ شیئر 39.53 فیصد رہا۔ ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے حق میں 32,57,511 ووٹ یعنی 13.90 فیصد ووٹ ڈالے گئے جبکہ کانگریس کے حق میں 93,35,792 رائے دہندوں نے اپنے ووٹوں کا استعمال کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کے مقابل کانگریس کا ووٹ شیئر 39.40 فیصد رہا۔ خوشخبری یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب بھی دو قطبی مسابقتی سیاست ہنوز زندہ ہے۔ چاروں ریاست میں کانگریس کا ووٹ شیئر 40 فیصد ہے ( تقریباً 2018کے شیئر کی طرح ) جو انتخابی جمہوریت کیلئے بہت اچھی بات ہے تاہم بی جے پی کے ووٹ شیئر میں تمام چاروں ریاستوں میں اضافہ ہوا، اور اس نے چاروں ریاستوں کے دارالحکومتوں اور شہری علاقوں کے حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ شیئر میں زیادہ فرق نہیں ہے سوائے مدھیہ پردیش کے۔ چھتیس گڈھ میں کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ شیئر میں صرف 4.04 فیصد کا فرق رہا ، اس کی وجہ قبائلی ووٹرس کی بی جے پی کی جانب منتقلی رہی۔29 محفوظ قبائلی حلقوں میں سے بی جے پی نے 17 اور کانگریس نے 11 میں کامیابی حاصل کی ۔ راجھستان میں یہ فرق 2.16 فیصد کا رہا۔