بی جے پی کامیاب کیوں ہوتی ہے ؟

   

رام پنیانی

حال ہی میں دہلی بلدیہ، ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔ ریاست گجرات میں بی جے پی نے زبردست اکثریت سے کامیابی حاصل کی جبکہ دہلی بلدی انتخابات میں اسے عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح ہماچل پردیش میں بی جے پی کو کانگریس نے ناکامی سے دوچار کردیا۔ ہماچل پردیش میں اگرچہ کانگریس اور بی جے پی کے حاصل کردہ ووٹوں کے درمیان زیادہ فرق نہیں رہا لیکن کانگریس نے 40 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے واضح اکثریت حاصل کی۔ بی جے پی دہلی اور ہماچل پردیش میں ناکام رہی لیکن گجرات میں اس نے جو کامیابی حاصل کی، اس کامیابی کو بی جے پی قائدین اور میڈیا نے بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا جس کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ ہماچل پردیش اور دہلی میں اس کی شکست پر پردہ ڈالا جائے اور اس معاملے میں میڈیا نے بی جے پی کا پورا ساتھ دیا۔ ایسے میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ میڈیا پوری طرح بی جے پی کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور اس کی ہر ناکامی کو عوام کی نظروں سے چھپانا اپنا فرض سمجھ رہا ہے۔ جہاں تک گجرات کا سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ وہاں کانگریس نے اپنی زیادہ توانائی صرف نہیں کی اور اس مرتبہ پٹیل طبقہ بی جے پی کے ساتھ تھا کیونکہ چیف منسٹر خود ایک پٹیل کو بنایا جانے والا تھا اور پٹیل چیف منسٹر کی قیادت میں یہ انتخابات لڑے گئے یہ اور بات ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی سخت محنت اور دوسری کئی وجوہات سے بی جے پی کو کامیابی ملی۔ ایک طرف انتخابات سے پہلے ہی بی جے پی نے ایک پٹیل کو چیف منسٹر بنانے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری طرف ہاردک پٹیل کی بی جے پی میں واپسی نے بھی بی جے پی کو استحکام بخشا۔ کانگریس نے KHAM فارمولہ پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ فارمولہ بی جے پی کی پٹیل۔ ہندوتوا سیاست کے آگے زیادہ کام نہ کرسکا۔ اسی سیاست کے نتیجہ میں بی جے پی نے نہ صرف اپنی نشستوں میں اضافہ کیا بلکہ اس کا ووٹ شیئر بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا۔ کانگریس کا مظاہرہ اس کے برعکس رہا۔ ایک تو اس کی نشستوں میں خطرناک حد تک گراوٹ آئی، دوسرے اس کا ووٹ شیئر بھی تقریباً نصف تک گھٹ گیا اور اس کا زیادہ تر ووٹ شیئر عام آدمی پارٹی کو منتقل ہوگیا۔ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ اقلیتی آبادی کے حامل علاقوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین سست روی کا شکار تھیں اور وہاں دوسری کئی اور بدعنوانیوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس کا کوئی نوٹ نہیں لیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایم آئی ایم کے ساتھ دوسرے بے شمار مسلم امیدوار منظر عام پر آئے اور خاص طور پر ان حلقوں میں جہاں کانگریس کے مسلم امیدواروں کی کامیابی کے امکانات روشن تھے، دوسرے (آزاد) مسلم امیدواروں کو میدان میں اُتارا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کو ناکام بنانے کی خاطر یہ سب کچھ کیا گیا۔ اس مرتبہ پٹیل برادری کا عنصر بہت اہمیت کا حامل رہا۔ خاص طور پر سماجی تانے بانے کے معاملے میں اس عنصر نے کام کیا اور اس سے کہیں زیادہ مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے سے متعلق بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کا کردار رہا اور یہی سیاست انتخابی مہم کے موقع پر چھائی رہی جبکہ عام آدمی پارٹی نے چاہے اس کا مقصد کچھ بھی رہا ہو، بلقیس بانو کے خاطیوں کی رہائی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی، اس کے برعکس بی جے پی نے رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بلقیس بانو کے زانیوں اور اس کے ارکان خاندان کے قاتلوں کا ان کی سزا مکمل ہونے سے قبل ہی رہا کیا جانا، رہائی پر ان کی گلپوشی اور مٹھائی کھلاتے ہوئے استقبال انتہائی شرمناک حرکت رہی لیکن وہ شرمناک واقعہ بھی اکثریتی سیاست کا ایک اشارہ تھا۔ بی جے پی نے اس اشارہ کو اس وقت اور بھی مضبوط کردیا جب اس نے چندرا سنہہ راول جی کو ٹکٹ دیا۔ چندرا سنہہ راول جی اس کمیٹی کا حصہ تھا جس نے ان زانیوں اور قاتلوں کو رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی رہائی کو امیت شاہ کی زیرقیادت وزارت داخلہ نے منظوری دی تھی۔ راول جی نے اس وقت فرقہ پرستی اور ناانصافی کی حد کردی جب یہ کہا کہ جن مجرمین کو رہا کیا جارہا ہے، وہ سنسکاری برہمن ہیں اور رہائی کے مستحق ہیں۔ زانیوں اور قاتلوں کو سنسکاری کہتے ہوئے راول جی نے متاثرین کی برادری کے زخموں پر ایک طرح سے نمک چھڑکا اس کا کہنا تھا کہ وہ (مجرمین) برہمن ہیں اور برہمن اپنے اچھے سنسکار کیلئے جانے جاتے ہیں اور انہیں جان بوجھ کر پھنسایاگیا ہے۔ اس طرح خاطیوں و مجرمین کو سنسکاری برہمن کہہ کر ان کی رہائی کی سفارش کرنے والا راول جی نہ صرف بی جے پی کا ٹکٹ حاصل کیا بلکہ بڑے فرق کے ساتھ کامیابی بھی حاصل کی۔ اگر دیکھا جائے تو آج سارے ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف نفرت کا ماحول شدت اختیار کرگیا ہے اور پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر اور یتی نرسنگھانند جیسے لوگ ملک بھر میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ مسلم اقلیت کے خلاف نفرت کی لہر میں شدت پیدا کررہے ہیں۔ اس طرح کی نفرت کا اظہار امیت شاہ نے بھی کیا جن کے مطابق کانگریس ووٹ بینک سیاست سے متعلق تشدد کے پیچھے کارفرما رہی ہے۔ امیت شاہ نے اس وقت اقلیتوں کے تئیں نفرت کی حد کردی جب انہوں نے گجرات کی انتخابی مہم میں کہا کہ 2002ء میں انہیں سبق سکھایا گیا جس کے بعد ان عناصر نے اپنا راستہ بدل دیا اور ان لوگوں نے 2002ء سے 2022ء تک تشدد میں ملوث ہونے سے گریز کیا۔ امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی نے فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے گجرات میں مستقل امن قائم کردیا۔ امیت شاہ کا اشارہ خاص طور پر وہ ، ان لوگوں جیسے الفاظ کس کے لئے استعمال کئے گئے بہت واضح ہے لیکن افسوس صد افسوس کے الیکشن کمیشن نے یہ کہتے ہوئے کوئی کارروائی نہیں کی کہ امیت شاہ نے اپنی تقریر میں کسی مخصوص برادری کا نام نہیں لیا۔ اگر دیکھا جائے تو گجرات فسادات کے جو اصل خاطی تھے ، انہیں رہا کروایا گیا ۔ چاہے وہ مایاکوڈنانی ہو یا پھر بابو بجرنگی انہیں سزائے عمر قید ہوئی تھی لیکن رہا کردیا گیا۔ گجرات اسمبلی انتخابات میں نروڈا تشدد کا خاطی منوج کوکرانی جیل میں تھا۔ فی الوقت وہ پیرول پر ہے۔ اس مجرم کی بیٹی کو بی جے پی نے اپنا امیدوار بنایا جسے زبردست اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ امیت شاہ نے کہا کہ خاطیوں کو سبق سکھایا گیا۔ گجرات کی زمینی حقیقت یہی ہے کہ دائیں بازو کے کارکنوں نے بہت زیادہ جارحانہ موقف اختیار کیا، زیادہ تر مسلمانوں کو الگ تھلگ کردیا گیا۔ انہیں بلدی سہولتوں سے عاری گندی بستیوں میں ڈھکیل دیا گیا۔ اس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جسمانی و جذباتی دوری اور رکاوٹوں کو پوری طرح مکمل کردیا گیا جو ملی جلی اور سماجی زندگی تھی، اسے وداع کردیا گیا اور زیادہ تر اقلیتی برادری کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ انہیں سماجی وقار اور موقعوں سے محروم کردیا گیا۔ حال ہی میں گجرات کے اندپھلا میں واقع دبھان نامی گاؤں کے بازار میں چند مسلم نوجوانوں کو ایک کھمبے سے باندھ کر سرعام لاٹھیوں سے پیٹا گیا اور گاؤں کے ہزاروں ہندوؤں کے سامنے یہ شرمناک حرکت کی گئی۔ اب یہ اصول بن گیا ہے کہ مسلم نوجوان گربا میں شرکت نہیں کرسکتے چنانچہ گربا کا پنڈال مسجد کے قریب نصب کیا گیا۔ پروگرام ایک گھنٹے تک پرامن رہا۔ بعد میں گربا کے چند شرکاء نے مسجد کی طرف گلال پھینکا اور پھر گاؤں کے سرپنچ کی شکایت پر کئی مسلم نوجوانوں کو پکڑ کر پولیس اسٹیشن لایا گیا اور ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے پھر انہیں واپس لاکر ایک کے بعد ایک کھمبے سے باندھ کر انتہائی بے رحمی سے پیٹا گیا حالانکہ ہمارا ہندوستانی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عید و تہوار مل جل کر منائے جاتے تھے، اب ہم ایک ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں معاشرہ کی تقسیم کو یقینی بنانے اشتعال انگیز اقدامات کا منصوبہ بنایا گیا۔ گجرات میں بی جے پی کی فتح اس قسم کی سیاست کا اشارہ ہوسکتا ہے جس پر مستقبل میں عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ بین مذہبی تعلقات کو پہنچے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے۔ ہندوازم ہمیں ساری دنیا سے پیار کرنے کا درس دیتا ہے لیکن یہاں ہم ایک ایسی تاریک سرنگ میں ہیں جہاں دوسروں سے نفرت سکھائی جارہی ہے۔٭