بی جے پی کو شکست کا خوف

   

آر ایس ایس اور اس کی بغل بچہ تنظیمیں ، ہندوستان اور اس کے دستوری جمہوری ، قانونی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کے لیے ہتھکنڈے اختیار کررہی ہیں ۔ اب تازہ ہتھکنڈہ یا بابری مسجد کی اراضی اور اس کیس سے مربوط اراضی کو ہڑپنے کا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کو اس کام پر لگادیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرکاری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کرے ۔ سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے ۔ مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی کہ ایودھیا میں 67 ایکڑ زمین حکومت کی ہے ۔ اس اراضی کا کچھ حصہ رام جنم بھومی اراضی نیاس کو دیا جائے ۔ مرکزی حکومت کی درخواست میں صراحت کردہ اس جملہ یعنی ’’ایودھیا اراضی کا کچھ حصہ رام جنم بھومی نیاس کو دیا جائے ‘‘ سے یہ چال سامنے آجاتی ہے کہ رام مندر بنانے کا انتظام کرتے ہوئے 2019 کے عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرلیے جائیں ۔ حکومت کا ادعا کہ ایودھیا میں صرف 2.77 اراضی متنازعہ ہے ماباقی اراضی اس کے مالکین کے حوالے کرنے کی اجازت دی جائے ۔ 1992 میں بابری مسجد شہادت کے بعد جو تنازعات پیدا کئے تھے اس کے پیش نظر سپریم کورٹ نے ایودھیا میں صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے متنازعہ زمین کے اطراف و اکناف کسی بھی قسم کی تعمیراتی سرگرمیوں پر سخت پابندی عائد کی تھی ۔ اب مرکز نے ایسی چال کیوں چلی اور سپریم کورٹ کو اس کے ہی حکمنانے سے گمراہ کرنے کی کوشش کیوں کی ۔ اس کا عدالت کو جائزہ لینا ہوگا ۔ اگر مرکزی حکومت کو ایودھیا کی فاضل اراضی سے دلچسپی تھی تو اس نے عین انتخابات کے وقت اس مسئلہ کو کیوں اٹھایا ۔ گذشتہ چار سال کے دوران اس نے خاموشی کیوں اختیار کی تھی ۔ اب حکومت اپنی ناقص سوچ کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ رام مندر کے لیے ہر طرح کی کوشش کررہی ہے ۔ بی جے پی کے رائے دہندوں کو یہ دکھایا جارہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا معاملہ اس کے لیے عزیز ہے اور وہ سپریم کورٹ کی وجہ سے بے بس ہے ۔ یہ حکومت کی سطح پر ہونے والی بدترین حرکت ہے ۔ اس کوشش کی ہر انصاف پسند شہری مخالفت کرے گا ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی موجودگی اور اس کیس کے دیگر فریقین کو نظر انداز کر کے آیا سپریم کورٹ مرکز کی درخواست عمل کرسکے گا ۔ یہ قائدین اور انصاف کے لیے امتحان اور آزمائش والی سیاست ہوگی ۔ جیسا کہ بابری مسجد اراضی تنازعہ کیس میں ایک درخواست گذار حاجی محبوب کا یہ ردعمل درست وقت پر سامنے آیا ہے کہ اگر مرکز کی بی جے پی حکومت سیاسی مقصد سے سپریم کورٹ کو استعمال کرے گی تو اس سے سارے ملک میں صورتحال بھیانک ہوجائے گی ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت بی جے پی کا سیاسی موقف کیا ہے وہ ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے ۔ عوام کے دلوں سے اتر چکی ہے اس لیے ایسے بہانے تلاش کررہی ہے کہ اس کے رائے دہندے اس سے دور نہ ہونے پائیں ۔ بی جے پی کے اس اقدام سے ایودھیا کیس سے وابستہ دیگر فریقین کو خاص کر رام مندر کے پجاریوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ یہ لوگ شروع سے ہی یہ زور دیتے آرہے ہیں کہ جب تک بابری مسجد جس اراضی پر قائم تھی یعنی 2.77 ایکڑ زمین کو رام جنم بھومی نیاس کے حوالے نہیں کیا جائے رام مندر کی تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔ کیا حکومت اس 2.77 اراضی کے اطراف کی زمین حاصل کر کے وہاں رام مندر تعمیر کرسکے گی ۔ کیوں کہ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کی اصل اراضی ان کی ملکیت کی ہے ۔ جب کہ اس اراضی کو چھوڑ کر دیگر زمین دینے مرکزی حکومت کی درخواست سراسر ایک ایسی مجہول کوشش ہے جو عوام کو تاریکی میں رکھ کر 2019 کے عام انتخابات تک ایک موافق بی جے پی ماحول کو گرم کیا جائے ۔ اب یہ تو بی جے پی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے قومی پارٹی کے طاقتور موقف کو کھودے گی ۔ اس نے ترقیات کے نام پر اور ہندوستانی عوام کو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دے کر ووٹ حاصل کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں جو مقام بنایا تھا اب اس مقام سے خود ہی اترنے والی حرکتیں کرنی شروع کی ہے ۔ بی جے پی کی تازہ حرکتیں انتخابات سے قبل ہی شکست قبول کرنے کی مترادف ہیں ۔۔