بی جے پی کے جنوبی ہند سے عزائم

   

کیا مُرجھا جائیں گے آرزوؤں کے کنول
رہگزر کیوں ڈگمگانے لگی ہے
مرکز اور بیشتر ریاستوں میں برسر اقتدار بی جے پی اپنے حلقہ اثر کو وسعت دینے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے اور اس کیلئے ہر حربہ اور ہر ہتھکنڈہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے جس طرح سے بی جے پی کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں ان میں جنوبی ہند کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کا جنوبی ہند میں وجود برائے نام ہی رہ گیا تھا ۔ صرف کرناٹک ایک ایسی ریاست تھی جہاں بی جے پی بمشکل اقتدار حاصل کیا کرتی تھی ۔ تاہم اب وہاں سے بھی بی جے پی نے اقتدار کھودیا ہے اور اسے کانگریس کے ہاتھوں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ٹاملناڈو میں پارٹی کا وجود برائے نام ہے ۔ تلنگانہ میں پارٹی کچھ حد تک عوامی تائید و حمایت رکھتی ہے ۔ گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں اس کے چار ارکان پارلیمنٹ تلنگانہ سے منتخب ہوئے تھے ۔ آندھرا پردیش میں پارٹی کا وجود برائے نام ہے ۔ کیرالا میں تمام تر جدوجہد کے باوجود پارٹی عوامی نمائندگی کا موقف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے۔ اب جبکہ پارلیمانی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگیا ہے اس سے کافی پہلے ہی سے بی جے پی نے جنوبی ہند میں اپنے سیاسی قدم کو مستحکم انداز میں جمانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ ٹاملناڈو میں ہو یا کیرالا میں ‘ تلنگانہ میں ہو یا پھر کسی اور ریاست میں گورنر کے استعمال کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کو مسائل کا شکار بنانے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ سرکاری کام کاج میں مداخلت کرتے ہوئے رکاوٹیں پیدا کرنے کے الزامات بھی پارٹی کے خلاف عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ بی جے پی چونکہ اس بار لوک سبھا میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے کا دعوی کر رہی ہے اس کے تحت وہ جنوبی ہند میں اپنے وجود کو وسعت دینے کیلئے سرگرم کوششیں کر رہی ہے ۔ ٹاملناڈو میں پارٹی کی جانب سے کئی سرکردہ قائدین کو انتخابی میدان میںاتارا جا رہا ہے حالانکہ وہاں اسے ابھی تک کے انتخابات میں کوئی کامیابی نہیںمل پائی تھی ۔ کیرالا میں بھی پارٹی نے معروف شہروں اور اہم شخصیات کو انتخابی میدان میں اتارا تھا لیکن یہ کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو پائیں ۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی پوری جدوجہد کے باوجود کوئی مقام حاصل نہیں کر پائی ہے ۔ اس صورتحال میںپارٹی نے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے ۔
تلنگانہ اور کرناٹک میں پارٹی کیلئے صورتحال قدرے مختلف ہے ۔ تلنگانہ میں حالانکہ اسے کوئی جماعت سیاسی مفاہمت کیلئے دستیاب نہیں ہے تاہم پارٹی اپنے طور پر ماحول تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میںاسے کامیابی ملنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کرناٹاک میں اپنی کمزور صورتحال اور عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے جنتادل سکیولر سے مفاہمت کرلی ہے ۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی بہت کے مصداق تلگودیشم پارٹی اور پون کلیان کی جنا سینا سے اتحاد کرلیا ہے ۔ جہاں تک تلگودیشم پارٹی کا سوال ہے وہ پہلے بھی بی جے پی سے اتحاد کرچکی ہے ۔ تلگودیشم کو آندھرا پردیش میں گذشتہ انتخابات میں مکمل صفائے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب بھی پارٹی کو کامیابی کا یقین نہیں رہ گیا تھا ۔ اسی لئے پہلے تو پون کلیان کی جنا سینا پارٹی سے اتحاد کیا گیا اور پھر پون کلیان کی ہی ایماء پر بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد میں شمولیت اختیار کی گئی ۔ اس طرح بی جے پی نے تلگودیشم کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آندھرا پردیش میں اپنے قدم جمانے کی مہم شروع کی ہے ۔اب یہ اتحاد کس حد تک عوام پر اثر انداز ہو پائیگا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم یہ ضرور قیاس کیا جا رہا ہے کہ پون کلیان ۔ چندرا بابو نائیڈو اور بی جے پی مشترکہ طور پر جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں شائد کامیاب نہیں ہونگے ۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس شرمیلا کو کانگریس کی صدارت سونپے جانے سے وہاں کی سیاسی صورتحال دلچسپ ضرور ہونے والی ہے ۔
ٹاملناڈو میں پارٹی کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح وہاں کھاتہ کھولا جائے اور لوک سبھا کی کوئی نشست حاصل کی جائے ۔ کیرالا کیلئے بھی پارٹی کی جانب سے منصوبے تیار کئے گئے ہیں اور ان پر شدت سے عمل کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ حالانکہ بی جے پی اپنے سیاسی وجود کو مستحکم کرنے کیلئے جنوب پر توجہ دے رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کو شمالی ہند میں اور دوسری ریاستوں میں انتخابات میں نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بہار ‘ مہاراشٹرا ‘مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ ہریانہ کے علاوہ اترپردیش میں بھی بی جے پی کی نشستوں کی تعداد گھٹ سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ہر چھوٹی جماعت یا ہر چھوٹے لیڈر کا سہارا لینے پر مجبور ہورہی ہے اور جنوب پر بھی اسی لئے توجہ دی کی جا رہی ہے۔ تاہم جنوب میں اسے توقع کے مطابق کامیابی ملنا بہت مشکل ہے ۔
الیکٹورل بانڈزکی حقیقت
ہندوستان میں یہ روایت بن گئی ہے کہ حکومت کے خلاف جب کبھی کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ اچانک ہی کوئی اور مسئلہ اچھال دیا جاتا ہے اور حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے والے امور پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں پارلیمانی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے اور الیکٹورل بانڈز کا مسئلہ عوام کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا اور اس میں کئی حقائق کا انکشاف ہونے والا تھا اچانک ہی چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو گرفتار کرلیا گیا اور سارا میڈیا اسی پر توجہ دینے میں مصروف ہوگیا ہے تاکہ عوام کے ذہنوںسے الیکٹورل بانڈز کے مسئلہ کو محو کیا جاسکے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ الیکٹورل بانڈز میں کئی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جملہ حیثیت سے کئی گنا زیادہ چندہ دیا ہے اور اس چندہ سے سب سے زیادہ بی جے پی نے استفادہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ مقدمات کے ملزمین کی جانب سے بھی چندہ دیا گیا ہے جو بی جے پی تک پہونچا ہے ۔ کچھ پراجیکٹس میں دھاندلیوں کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور ان کے کنٹراکٹ حاصل کرنے والی کمپنیوں نے بھی چندہ دیا تھا ۔ ان سارے عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے الیکٹورل بانڈز کی حقیقت اور ان کے استفادہ کنندگان کی تفصیلات کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے عوام حقیقت سے واقف ہوسکیں۔