بی جے پی کے دعووں کی حقیقت

   

جانے کب آنکھوں میں چُبھ جائے کوئی بے رحم سچ
آئینہ بھی دیکھنے والو سنبھل کر دیکھنا
آئندہ پارلیمانی انتخابات کا بگل کسی بھی وقت بجایا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کی تیاریاںتقریبا پوری کرلی گئی ہیں۔ ان ریاستوں میں بھی انتظامات کئے گئے ہیںجہاںپارلیمنٹ کے ساتھ اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر انتخابات کی تیاریوں کو تیز کرچکی ہیں۔ برسر اقتدار بی جے پی کی جانب سے دو سو کے قریب امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے بھی تین درجن سے زائد امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہوچکا ہے ۔ دوسری علاقائی اور دیگر جماعتیں بھی اپنے اپنے امیدواروں کے ناموںکوقطعیت دینے میں مصروف ہیں۔ اس ساری صورتحال میں بی جے پی کی جانب سے آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے مقصد سے کئی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے بی جے پی جدوجہد کر رہی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں۔ اب کی بار ۔ 400 پار کا نعرہ بھی دیا جا رہا ہے ۔ اس نعرہ کی بہت زیادہ تشہیر بھی ہو رہی ہے ۔ اس ساری تشہیر کا مقصد عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونا اور ایک ایسا تاثر پیدا کرنا ہے کہ بی جے پی کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کو بھی شکست دی جاسکتی ہے ۔ مغربی بنگال ہو یا کرناٹک ہو ‘ مہاراشٹرا ہو یا تلنگانہ ہو یا دہلی ہو یا پنجاب ہو کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کوشکست دی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی اور اس کے تلوے چاٹنے والا گودی میڈیا عوام میں یہی تاثر عام کرنے میںلگا ہوا ہے کہ بی جے پی کو شکست دینا اپوزیشن کے بس کی بات نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اپوزیشن کے متحدہ مقابلہ سے متفکر ہے ۔ اسے اپنے دعووں کے کھوکھلے پن کا بھی احساس ہے لیکن تشہیری حربہ کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کو خود بھی اپنی کامیابیوں کے تعلق سے پورا یقین نہیں رہ گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی دوسری جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے اور انحراف کروانے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ کئی جماعتوں کی آو بھگت کرتے ہوئے انہیں این ڈی اے کا حصہ بنانے کی مہم بھی تیز کردی گئی ہے ۔ کئی قائدین کو دوسری جماعتوںسے لا کر بی جے پی میں شامل کرنے کی مہم بھی پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھائی جا رہی ہے ۔
بی جے پی ایک ایسی جماعت ہے جس نے کئی ریاستوں میں مقامی و علاقائی جماعتوں سے اتحاد کیا ۔ وہاں اپنے قدم جمائے اور ان جماعتوںہی کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی تھی ۔ اس کی مثالیں پنجاب ‘ مہاراشٹرا ‘ آندھرا پردیش اوردیگر ریاستوں میںدیکھنے کو ملی ہیں۔ اب جبکہ انتخابات کا وقت قریب آچکا ہے اور یہ تاثر خاموشی سے مستحکم ہوتا جا رہا ہے کہ اس بار بی جے پی کیلئے کامیابی آسان نہیںرہے گی اور جو دعوے کئے جا رہے ہیںان کو حقیقت میں بدلنا مشکل رہے گا ایسے میں بی جے پی نے علاقائی اور مقامی جماعتوںکو اپنے ساتھ ملانے کی مہم شروع کر رکھی ہے ۔ بہار میں نتیش کمار کو دوبارہ ساتھ ملا لیا گیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں این سی پی اور شیوسینا میں پھوٹ ڈال کر ان کے گروپس کو این ڈی اے کا حصہ بنالیا گیا ہے ۔ اسی طرح آندھرا پردیش میں تلگودیشم اور جنا سینا پارٹی کے ساتھ اتحاد کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا ۔ اوڈیشہ میں گذشتہ پندرہ برسوں سے اختلافات کے باوجود بیجو جنتادل کے ساتھ بھی ہاتھ ملایا جا رہا ہے ۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جہاں بی جے پی کو تازہ کامیابیاں ملی ہیں اور وہاں اس نے اقتدار حاصل کیا ہے وہاں بھی کانگریس کے کچھ قائدین پر اثرا نداز ہوتے ہوئے انہیں اپنی صفوںمیںشامل کیا جا رہا ہے ۔ دوسری ریاستوں میں بھی یہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کے دو ارکان پارلیمنٹ کو بی جے پی میںشامل کرلیا گیا ہے ۔ یہ سارا کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے کیونکہ بی جے پی کو خود اپنے بل پر انتخابات میں کامیابی کا یقین نہیں رہ گیا ہے ۔ اسے اپنے طور پر شبہات لاحق ہیں اور ان کی وجہ سے ہی بی جے پی دوسری جماعتوں اور قائدین پر انحصار پر مجبور ہو رہی ہے ۔
جو انتخابی ماہرین ہیں ان کا ماننا ہے کہ انتخابات کا شیڈول جاری ہونے سے پہلے فی الحال جو صورتحال ہے اس میں بی جے پی کو اس کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی ریاستوں میںمشکل پیش آرہی ہے ۔ اترپردیش میں بی جے پی توقع کے مطابق شائد کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔ بہار میں بھی اسے نقصان ہوسکتا ہے ۔ مہاراشٹرا اور مغربی بنگال کی صورتحال بھی پارٹی کیلئے سازگار نہیں رہ گئی ہے ۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان مے بھی بی جے پی ک معمولی ہی صحیح نقصان ہوسکتا ہے ۔ دہلی میں بھی پارٹی کی نشستیں کم ہوسکتی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی نے اب کی بار ۔ چار سو پار کا جو نعرہ دیا ہے وہ کھوکھلا ثابت ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی علاقائی جماعتوں اور اپوزیشن کے قائدین کو ساتھ ملانے پر مجبور ہو رہی ہے ۔
آصف علی زرداری کا انتخاب
پاکستان میں توقعات کے مطابق آصف علی زرداری مملکت منتخب کرلئے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں رائے دہی میںزرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کی تائید سے یہ کامیابی ملی ہے ۔ ویسے تو جس طرح سے پاکستان میںانتخابات ہوئے ہیں اور ان پر دھاندلیوں کے جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں وہ ساری دنیا جانتی ہے ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی تحریک انصاف کے خلاف قانون کا سہارا لیتے ہوئے جو کارروائیاں کی گئی تھیں ان کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں کوئی بھی عوام کی تائید حاصل کرتے ہوئے تنہا حکومت تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ رائے دہی کے بعد رائے شماری میں بھی دھاندلیوں کی شکایات سامنے آئی تھیں اور پاکستان الیکشن کمیشن یا نئے وزیر اعظم شہباز شریف بھی ان شبہات کو دور کرنے میںکامیاب نہیں ہوسکتے ۔ اب جبکہ شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے ہیں اور آصف علی زرداری کو دوسری مرتبہ صدر پاکستان کا عہدہ مل گیا ہے تو ان دونوں کی ذمہ داریوںمیں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان کو ایک پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنی کی طرح چلانے کی بجائے ایک ملک کی طرح چلانے کی ضرورت ہے ۔ آج ساری دنیا میں پاکستان کو جس طرح سے یکا و تنہا کردیا گیا ہے وہ وہاں کے حکمرانوں کی ناکامیوں اور ان کی مفاد پرستانہ سیاست کا نتیجہ ہے ۔ اگر شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا ہے تو ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے ملک کو بچانے کیلئے سنجیدگی و بردباری کے ساتھ حکومت چلائیں۔