بی جے پی ۔ جے ڈی ایس اتحاد

   

ہر بار اسمبلی یا پارلیمانی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں میں اتھل پتھل اور سیاسی اتحاد میںتبدیلیاںعام بات ہیں۔ ہر جماعت میںکچھ نہ کچھ انحراف ہوتے ہیں۔ پرانے قائدین پارٹی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور نئے قائدین کی آمد بھی ہوتی ہے ۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی ایک اتحاد سے ترک تعلق کرتے ہوئے دوسرے اتحادسے تعلق استوار کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہیں۔ کچھ مواقع پر یہ فیصلے درست بھی ثابت ہوتے ہیں اور کچھ مواقع پر اس طرح کے فیصلوں سے نقصان بھی ہوتا ہے ۔ کئی علاقائی جماعتیں ایسی ہیںجنہوں نے تقریبا ہر موقع پر اپنے سیاسی اتحاد کو تبدیل کیا ہے ۔ کچھ قائدین بھی ایسے ہیںجنہوں نے تقریبا ہر الیکشن کے موقع پر اپنی پارٹی کو تبدیل کیا ہے ۔ ایک سے دوسری پارٹی میںشمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کرنا ان کا وطیرہ ہے ۔ اسی طرح کی جماعتوں میں جے ڈی ایس بھی شامل ہے ۔ جے ڈی ایس نے کرناٹک میں اقتدار کیلئے اور اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے کبھی کانگریس کے ساتھ حکومت بنائی اور اقتدار میں شراکت داری کی تو کبھی بی جے پی کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ 2018 میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے بعد جے ڈی ایس چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود کانگریس کی تائید سے اس نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا ۔ جے ڈی ایس لیڈر ایچ ڈی کمارا سوامی ریاست کے چیف منسٹر بن گئے تھے ۔ تاہم وہ اپنے ارکان اسمبلی کو باندھ کر نہیں رکھ پائے ۔ یہی حال کانگریس کا بھی تھا ۔ اس کے اور جے ڈی ایس کے ارکان اسمبلی نے انحراف کیا اور بی جے پی میںشمولیت اختیار کرلی جس کے بعد کمارا سوامی حکومت زوال کا شکار ہوگئی اور بی جے پی نے پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرلیا تھا ۔ 2023 کے انتخابات میںجے ڈی ایس کا کسی سے اتحاد نہیںہوا اور اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد خاطر خواہ گھٹ گئی تھی ۔ کانگریس نے جے ڈی ایس اور بی جے پی دونوں ہی کو بری طرح سے پچھاڑتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی اورا س نے اقتدار حاصل کرلیا تھا ۔ کانگریس کو اقتدار کیلئے کسی جماعت کی تائید درکار نہیںہے ۔
اس صورتحال میں جے ڈی ایس کیلئے ریاست میں کسی کا ہاتھ تھامنے اور سہارالینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کیونکہ آئندہ چند مہینوں میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کرناٹک کی جہاں تک بات ہے تو صرف جے ڈی ایس کو ہی بی جے پی کے سہارے کی ضرورت نہیںہے ۔ خود بی جے پی کو بھی جے ڈی ایس کے سہارے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ ریاست میں عوام نے دونوں ہی جماعتوں کو چھوڑ کر کانگریس کی تائید کی ہے اور یہ تائید بھی بہت بھاری رہی ہے ۔ بی جے پی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی لوک سبھا نشستوں کو برقرار رکھنے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے ۔ کرناٹک وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ بی جے پی کوا ب اس ریاست میںشدید نقصان کے اندیشے لاحق ہیں۔ ایسے میں بی جے پی خود ڈوبتی کشتی بن گئی ہے اور وہ تنکوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ جس طرح شمالی ہند کی کچھ ریاستوں میں بھی بی جے پی کو اپنی تمام نشستیں برقرار رکھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے اسی طرح جنوب میں تو بی جے پی کا وجود ہی کرناٹک تک محدود ہے ۔ اگر وہاں بھی بی جے پی کو بھاری نقصان ہوتا ہے اور اس کی لوک سبھا نشستوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آتی ہے تو اس کے اثرات آئندہ حکومت سازی پر مرتب ہوسکتے ہیں اور بی جے پی کیلئے حکومت بنانا مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا جائیگا ۔ بی جے پی اسی صورتحال کو ٹالنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتی ہے ۔
جہاں تک جے ڈی ایس کی بات ہے توا س کے نام کے ساتھ سکیولر بھی موجود ہے ۔ تاہم بی جے پی سے ایک سے زائد بار اتحاد کرتے ہوئے اس نے اپنے سکیولر ازم پر سوال خود ہی پیدا کرلیا ہے ۔ اب محض انتخابی فائدہ کیلئے جے ڈی ایس نے اپنے سکیولر کردار کو دوبارہ مشکوک کرلیا ہے ۔اپنے اصولوں پر سمجھوتہ سے بھی پارٹی نے گریز نہیں کیا ہے ۔ کرناٹک کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوںکو اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سکیولرازم کا دعوی کرتے ہوئے بی جے پی سے اتحاد کرنے والوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے عوام پہلے ہی سے باشعور ہیں اور اس کا ثبوت اسمبلی الیکشن میں انہوں نے دے بھی دیا ہے ۔ تاہم پارلیمانی الیکشن میں بھی سیاسی شعور اور بصیرت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔