بے جا خرچ سے ملک و قوم کا نقصان

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
ہر ملک میں داخلی سرمایہ ملک کے باشندوں کی اس رقم سے حاصل ہوا کرتا ہے، جو وہ بے جا طورپر خرچ نہیں کرتے، بلکہ ان سے بچاکر اپنے پاس رقمیں جمع کرتے ہیں یا ملک کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ سرمایہ ملک میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال ہوتا ہے، وہ زراعت اور صنعت و حرفت میں لگایا جاتا ہے، اس سے صنعتیں قائم ہوتی ہیں، یعنی روزگار بڑھتا ہے، بیروزگاری کم ہوتی ہے، افراد کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، اشیاء کی طلب بڑھتی ہے، طلب مؤثر بن جاتی ہے، اس سے تمام متعلقہ حرفتیں، صنعتیں اور زراعت وغیرہ ترقی کرتی ہیں، ملک کی معاشی بدحالی میں کمی واقع ہوتی ہے اور پھر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ اس سے بے جا اخراجات کے ختم کرنے کے بلند پایہ اور مفید اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اگر بے جا اخراجات ختم نہیں کئے جاتے تو ملک اور قوم کو زبردست نقصان پہنچتا ہے۔ اس لئے ہر فرد کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ صرف ضروری اخراجات کرے اور اپنی احتیاجات کو تسکین پہنچاکر اپنا معیار زندگی بلند کرے اور اپنے ہم وطنوں کو بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع دے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں اپنی احتیاجات کی تسکین میں بخل سے کام لینا چاہئے، کیونکہ بخل اور کنجوسی ہر فرد کے علاوہ ملک اور قوم کو معاشی فوائد سے محروم رکھتے ہیں۔
اسلام نے خرچ کرنے اور اپنی احتیاجات کی تسکین کی اجازت دی ہے، تاہم سورۂ اعراف میں بے جا صرف سے روکا بھی گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی کمائی کو بے جا طورپر اڑانا اور خرچ کرنا نہ صرف اپنا ذاتی نقصان ہوتا ہے، بلکہ وہ فائدہ جو جائز اخراجات کی صورت میں دوسروں کو پہنچ سکتا ہے، وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے بے جا اخراجات کو ناپسند فرمایا ہے۔بہت سے لوگ کماتے تو ہیں مگر خرچ نہیں کرتے، بلکہ اس خوف سے کنجوسی کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی جمع کی ہوئی رقم میں کمی آجائے۔ حالانکہ صحیح طورپر خرچ کرنے سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور (بخل جیسی) شرمناک بات کا حکم دیتا ہے، مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے‘‘۔ قرآن حکیم ان لوگوں کو جو اللہ کے فضل و کرم سے اپنے پاس زیادہ آمدنی رکھتے ہیں، اس بات کا حکم دیتا ہے کہ اس آمدنی کی سرمایہ کاری کرو اور پھر دیکھو اللہ تعالی اس میں کتنا اضافہ فرماتا ہے۔ اس سے ایسے لوگوں کی آمدنی بھی بڑھے گی، دوسروں کو روزگار بھی ملے گا اور ملک خوشحال ہو جائے گا۔ مگر یہ صرف اسی صورت میں ہوگا، جب کہ صحیح اور جائز مقاصد کے لئے رقمیں خرچ کی جائے گی۔