تاریخی ’آیا صوفیہ‘ میں86 سال بعد فرزندان توحید کے سجدے بحال

,

   

نماز جمعہ کی ادائیگی کیساتھصدر ترکی اردغان کے دیرینہ خواب کی تکمیل۔استنبول میں فن تعمیر کا شاہکار کبھی چرچ تو کبھی میوزیم تھا

استنبول: صدر ترکی رجب طیب اردغان اپنے اسلامی تعلیمات سے متاثر بچپن اور جوانی کے دنوں کے خواب کی تکمیل کرتے ہوئے جمعہ کو سینکڑوں مصلیوں کے ساتھ شامل ہوئے جو استنبول کے سنگ میل ’’آیا صوفیہ‘‘ کے اندرون 86 سال میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے نماز ادا کی۔ یہ تاریخی عمارت عیسائیوں کے نہایت نمایاں کیتھڈرلس میں شمار کی جاتی رہی ہے۔ یہ مسجد بھی رہی اور پھر اسے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا یہاں تک کہ اب اسے دوبارہ مسلمانوں کی عبادتگاہ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ سارے ترکی سے ہزاروں فرزندان توحید تیزی سے بازنطینی دور کی یادگار کے بیرونی حصہ میں جمع ہوگئے تاکہ طویل عرصہ بعد پہلی نماز میں شرکت کرسکیں۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان نماز جمعہ کیلئے جمع ہوئے کہ متعدد کو اندرون عمارت جگہ نہ مل سکی۔ یونان اور امریکہ میں آرتھوڈاکس کرسچن چرچ کے لیڈروں نے آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کردینے پر یوم سوگ منایا۔ آج کے تاریخی موقع کی شروعات میں صدر اردغان نے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ ترکی کے اعلیٰ مذہبی ادارے کے سربراہ علی ارباز نے تقریب کی صدارت کی اور دعا کی کہ مسلمانوں کو پھر کبھی چھٹی صدی عیسوی کی اس بین الاقوامی شہرت یافتہ عمارت میں عبادت کے حق سے محروم نہ ہونا پڑے۔ صدر اردغان نے کہا کہ نماز جمعہ میں 3 لاکھ 50 ہزار مسلمانوں نے حصہ لیا۔ بین الاقوامی تنقیدوں کو مسترد کرتے ہوئے اردغان نے اس ماہ کے اوائل تاریخی عمارت کو مسجد کے طور پر بحال کرنے کے احکام جاری کردیئے تھے۔ انہوں نے یہ اقدام ترک ہائیکورٹ کی اس رولنگ کے فوری بعد کیا کہ آیا صوفیہ کو زائد از 8 دہے قبل غیرقانونی طور پر میوزیم میں تبدیل کیا گیا تھا۔ یونیسکو ورلڈ ہیرٹیج عمارت کے طور پر درج فن تعمیر کا یہ شاہکار کو جامع مسجد آیا صوفیہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس اقدام پر یونان، امریکہ کے علاوہ دیگر گرجاگھروں میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ پوپ فرانسس نے بھی افسردگی ظاہر کی ہے۔
عیسائیت کی علامتیں برقرار رہیں گی
’’آیا صوفیہ‘‘ کی عمارت 537ء میں بازنطینی شہنشاہ جسٹنین اول کے دور میں ایک چرچ کے بہ طور تعمیر کی گئی تھی۔ قسطنطنیہ پر سلطنت عثمانیہ کے قبضے کے بعد آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے اسے میوزیم میں بدل دیا تھا۔ ترکی میں مذہبی امور کی نگران قومی مقتدرہ، جو ’دیانت‘ کہلاتی ہے، اس نے کہا ہیکہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث کی فہرست میں شامل اس عمارت میں موجود کوئی بھی عیسائی مذہبی علامت یا تاریخی پینٹنگز وہاں سے ہٹائی نہیں جائیں گی۔ ایسی مذہبی علامات کو نماز کے وقت یا تو پردے لگا کر ڈھانپ دیا جائیگا یا پھر داخلی طور پر روشنی کا انتظام اس طرح کیا جائیگا کہ یہ علامات براہ راست اور بالکل سامنے نظر آنے والی اشیاء اور دیواروں پر پینٹنگز کے طور پر نہیں دیکھی جا سکیں گی۔ ’دیانت‘ نے یہ اعلان بھی کیا کہ نمازوں کے اوقات کے علاوہ مہمانوں کو یہ اجازت بھی ہو گی کہ وہ اندر جا کر اس عمارت کی سیر کر سکیں گے۔ اس کیلئے اب کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔