تجدید ِنکاح در صورت ِتفریق بعد عدت ِطلاق ِرجعی

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا عقد زید سے ہوا۔ پھر زید نے ہندہ کو تحریراً طلاق دی جس میں لکھا کہ ’’بدرجہ مجبوری میں آپکو طلاق دیتا ہوں اور اب آپ آئندہ میری زوجہ نہیں رہیں میرے اور آپ کے تعلقات زن و شوہر کے نہیں رہے‘‘۔ ہندہ عدالت میں رجوع ہویں تو شوہر نے عدالت میں بھی بیان دیا کہ میں نے اسے ڈاک کے ذریعہ طلاق دیدیا ہے۔ اس وقت ہندہ حاملہ تھیں۔ بعد ازاں چند اصحاب کے صلح صفائی کرانے پر کو ہندہ اور زید نے تجدید نکاح کیا۔
ایسی صورت میں شرعاً ہندہ و زید میاں بیوی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے جو تجدید نکاح کیا وہ درست ہے یا کیا ؟
جواب : بشرطِ صحت ِسوال صورت مسئول عنہا میں ذریعہ تحریر زید نے جو طلاق دی اس کی وجہ ہندہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر اندرون عدت (یعنی وضع حمل تک) رجوع کرسکتا تھا۔ بعد ختم عدت (یعنی وضع حمل کے بعد) دونوں میں تفریق ہوگئی۔ لیکن دونوں نے آپس میں برضاء و رغبت بقرار مہر جدید دوبارہ نکاح کرلئے تو شرعا یہ عقد درست و جائز ہے اور اب ہندہ و زید میاں بیوی ہیں۔ عالمگیری جلد اول ص۳۴۸ میں ہے :
وأما حکمہ فوقوع الفرقۃ بانقضاء العدۃ فی الرجعی و بدونہ فی البائن کذا فی فتح القدیر۔ اور ہدایہ کے کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقۃ میں ہے : وان کان الطلاق بائناً دون الثلاث فلہ أن یتزوجھا فی العدۃ و بعد انقضائھا۔
شرائط ِجمعہ و تعریف ِ مصر
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک موضع میں مسلمانوں کے تقریبًا ۵۰، ۶۰ مکانات ہیں اور انکی آبادی ڈھائی سو تا تین سو ذکور و اناث اور اطفال پر مشتمل ہے ان میں ایکسو ذکور ہیں۔ موضع مذکور میں ایک مسجد ہے جہاں امام مقرر ہے اور پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ بھی ہوتی ہے۔
ایک عالم صاحب نے کہا کہ اس مسجد میں نماز جمعہ نہیں پڑھ سکتے۔ مخفی مبادکہ اس موضع میں دینی علم رکھنے والے چار پانچ مسلمان ایسے ہیں جو جمعہ پڑھاسکتے ہیں۔
ایسی صورت میں شرعًا کیا حکم ہے ؟
جواب : شرعًاصحت جمعہ کے لئے مصر بھی شرط ہے اور مصر کی مفتیٰ بہ تعریف یہ ہے کہ مصر ایسی آبادی کا نام ہے کہ وہاں مسلمان جن پر نماز جمعہ فرض ہے اس قدر ہوں کہ اس مقام کی بڑی مسجد میں انکے ایک دم جمع ہونے کی گنجائش نہ ہو۔ درمختار کے باب الجمعۃ میں ہے: المصر وھو مالایسع اکبر مساجدہ أھلہ المکلفین بھا و علیہ فتویٰ اکثر الفقہاء مجتبی لظہور التوانی فی الأحکام۔
پس صورت مسئول عنہا میںموضع مذکور السوال میں مسلمانوں کی ایسی تعداد ہے تو جمعہ قائم ہوسکتا ہے۔ ورنہ ظہر پڑھی جائے۔