تحریک آزادی میں مدارس کا کردار

   

مدارس کو ملک مخالف کہنا تحریک آزادی کے مجاہدین کی توہین ہے
مدارس کو سیکورٹی خطرات اور دہشت گردی سے جوڑنے کا عمل اسلاموفوبیا ہے

ابھے کمار
بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی دیہی ترقی کے وزیر گری راج سنگھ متنازعہ بیانات دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں، انہوں نے دعوی کیا ہے کہ مدارس اور مساجد کی غیر قانونی تعمیر بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے، جو ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ خبروں کے مطابق بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بہار غیر قانونی مدارس اور مساجد سے بھر گیا ہے۔ خاص طور پر نیپال اور بنگلہ دیش کی سرحدوں سے متصل علاقوں میں صورتحال سنگین ہے۔ اس طرح کی بات چھیڑ کر، انہوں نے اکثریتی طبقہ کے دلوں میں اقلیتی مسلمانوں کے تعلیمی اور دینی اداروں کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اتناہی کہکر نہیں رک گیے، بلکہ یہ بھی الزام لگایا کہ ریاست بھر میں ممنوعہ پی ایف آئی کی مضبوط موجودگی ہے۔ لہذا یہ صورتحال ملک کی داخلی سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔
مسلمانوں کا ڈر دکھلا کر گری راج سنگھ نے سماجی انصاف کی سیاسی پارٹیوں کو اکثریتی طبقہ میں بدنام کرنے کی بھی کوشش کی۔سیکولر طاقتوں پر حملہ بولتے ہوئے، گری راج سنگھ نے کہا کہ ریاست میں جے ڈی یو اور آرجے ڈی کے زیر قیادت حکومت مسلم کمیونٹی کوخوش کرنے کی خاطر ریاست میں غیر قانونی مدارس اور مساجد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خطرے کو نظر انداز کر رہی ہے۔
جہاں گری راج سنگھ کے بیان کو آرجے ڈی اور جے ڈی یو کے لیڈران نے پوری طرح سے خارج کر دیا ہے اور ان پر سماج میں فرقہ واریت کا زہر کھولنے کا الزام لگایا ہے، وہیں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گری راج سنگھ نے اپنے تازہ بیان سے اپنے سخت گیر حامیوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر اور پارٹی کے اندر کمزور ہوتی اپنی پوزیش کو مضبوط کرنے کے مقصد سے انھوں نے پھر مسلم مخالف کارڈ کھیلا ہے۔ گری راج سنگھ کا بیان نہ صرف سیاست کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی خاطر دیا گیا ہے، بلکہ یہ تاریخی طور پر بھی غلط اور گمراہ کن ہے۔ گری راج سنگھ سے پہلے بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران مدارس کے خلاف منفی بیانات دے چکے ہیں ۔ حالانکہ یہ سب کچھ وہ سیاسی فائدے کے لیے کرتے ہیں، مگر اس سے ملک اور معاشرہ کا بڑا نقصان ہوتا ہے اور سماجی ہم آہنگی پر چوٹ پہنچتی ہے۔ مدارس کو ملک مخالف کہنا تحریک آزادی کے مجاہدین کی توہین ہے۔ مدارس کو سیکورٹی خطرات اور دہشت گردی سے جوڑنے کا عمل اسلاموفوبیا ہے۔
مسلمان اور اسلام مخالف مواد پیدا کرنے میں مستشرقین ، مصنفین کا اہم رول رہا ہے۔ انہوں نے مسلم سماج کے بارے میں وہ ساری باتیں لکھی ہیں، جو وہ مغربی دنیا کی خوبیوں کے برعکس ہیں۔ مثال کے طور پر مسلم سماج کو مذہبی جنون میں مبتلا بتایا گیا، جبکہ یوروپ کو سیکولر، معقولیت پسند اور روشن خیال کہا گیا۔ جہاں مغربی دنیا کو آزادی اور جمہوریت کا دوسرا نام دیا گیا، وہیں مسلم سماج کو غیر جمہوری کہا گیا، جہاں شخصی آزادی کے لیے بہت ہی کم جگہ موجودہے ۔مسلم سماج کی خواتین کی بھی شبیہ مسخ کی گئی اور ان کو مظلوم بتایا گیا، جو پردہ میں قید ہیں۔ مسلمانوں کے تعلیمی اور مذہبی اداروں کی شبیہ بھی بگاڑی گئی اور کہا گیا کہ یہ لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور روشن خیال باتوں کی تردید کرتے ہیں۔ اس طرح کی تحریر کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ یہ مسلم معاشرے میں موجود تمام تضادات کو مٹادیتی ہے اور اسے صرف مذہبی زاویے سے دیکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی اور دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
مستشرقین مصنفین نے جو غلط رحجان پیدا کیا وہ آج بھی موجود ہے۔ آج بھی مسلم مخالف طاقتیں یہ افواہ پھیلاتی ہیں کہ مغربی معاشرہ سیکولر ازم، سائنس، اور جمہوریت کی اقدار پر مبنی ہے، وہیں مسلم معاشرہ صرف مذہبی ہے۔ سال ۲۰۰۱ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑی گئی، اس نے اسلاموفو بک ڈسکورس کو مزید بھڑکا دیا۔ اسی بیانیہ کی وجہ سے مدارس کا خوف پیدا کیا گیا ہے۔ اسلاموفوبیا کے زیر اثر مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا عمل شروع ہوا۔ جب اٹل بہاری واجپائی اقتدار میں آئے تو اربابِ اقتدار نے مدارس کے خلاف مہم چلائی۔ ان کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا، جو آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔ مگر اس مہم میں بہت سارے معصوم لوگوں کی زندگی برباد ہوگئی۔
مہاتما گاندھی کے علاوہ ڈاکٹر راجیندر پرساد، جو آزاد بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ تھے اور کانگریس کے بڑے لیڈر تھے، کے تعلقات بھی مسلمانوں کے دینی تعلیمی اداروں سے تھا۔ اپنی سوانح عمری میں، راجندر پرساد نے لکھا ہے کہ ان کے مولوی صاحب نے ان کو حروف سکھلائیں اور ان کو فارسی زبان کی کتابیں پڑھا ئیں۔ بہار کانگریس کے بڑے لیڈر ڈاکٹر پرساد بچپن میں مکتب گئے۔ اپنے مولوی صاحب کی وجہ سے ہی راجیندر پرساد نے فارسی تحریریں پڑھنا سیکھیں جیسے کریمہ، گلستان،بوستان وغیرہ شامل ہیں۔ مولوی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے راجندر پرساد نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ وہ جو تھوڑی بہت فارسی جان سکے، وہ مولوی صاحب کی وجہ سے ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندو اسکالرس کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو مدارس اور مکاتب سے پڑھے ہوئے تھے۔ ان کو اردو اور عربی، فارسی آتی تھی۔ اسی طرح مسلمان علماء نے بھی اودھی، برج بھاشا، ہندی اور سنسکرت سیکھی اور ہندو اساتذہ کے زیر انتظام تعلیمی مراکز میں گئے۔
ہندوستان کی مشترکہ ثقافت پر آج حملہ کیا جارہا ہے۔ بی جے پی لیڈر ان مدرسوں کو بدنام کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ انہیں اسکول اور کالج جانا چاہیے اور ان کو سیکھنا چاہیے۔ آسام کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے بھی اسی طرح کی باتیں کہیںہیں۔ ۲۰۱۸ء میں وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ وہ مسلم نو جوان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگرسچائی یہ ہے کہ بی جے پی سرکار مسلسل اقلیتوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جو اسکالرشپ سابقہ سرکاروں نے شروع کیے تھے، آج وہ بھی بند ہوگئے ہیں اور اقلیتی سماج کے طلبہ تعلیم حاصل کرنے میں دشواریوں سے دو چار ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کو آگے لانے کے لئے نئے نئے منصوبہ چلائیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مدارس کو مدد دیں، کیونکہ اگر اقلیتی سماج کے بچے تعلیم میں پیچھے رہ جائیں گے تو ملک پسماندگی کے دلدل سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ مدرسہ کے بچے بہت ہی کم وسائل میں تعلیم حاصل کر پا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کا ساتھ دیا جائے، نہ کہ ووٹ کی خاطر ان کو بدنام کیا جائے۔ مدرسوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی معنویت کو بنا ئیں رکھیں اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر بھی زور دیں۔ ایک کامل انسان وہی ہے جو تمام علوم میں ماہر ہو۔ اسلام کا بھی یہی جذبہ ہے کہ انسان کو علم کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے۔
(مضمون نگار جے این یو سے جدید تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)
debatingissues@gmail.com