تخت و تاج کبھی باقی نہیں رہتا

   

پی چدمبرم
دنیا میں ایسے کتنے ممالک اور ان کے عوام ہیں جو انتخابات کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں تبدیلی بہت جلد آنے والی ہے یا جو ان لوگوں نے سوچ رکھا تھا و امید اور خدشات کا اظہار کیا تھا وہ پوری ہونے والی ہے۔ آج امریکہ میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس کے لئے ڈونالڈ ٹرمپ ذمہ دار ہیں۔ ہم اس ضمن میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ 3 نومبر کو ہوئے آزادانہ و شفاف انتخابات میں امریکی عوام نے جوبائیڈن کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کا اگلا صدر (زیادہ تر ان کے ہی صدر منتخب ہونے کے امکانات ہیں) منتخب کرتے ہوئے یہ بتا دیا کہ اب امریکہ میں کیا ہونے والا ہے کہ کونسی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اختیارات کا بیجا استعمال کیا ہے اور دروغ گوئی کا سہارا لیا اس کے باوجود انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
میں کہتا ہوں کہ امریکی انتخابات بحیثیت مجموعی آزادانہ منصفانہ اور شفاف انداز میں ہوئے ہاں ابتداء میں رائے دہی کے مرحلہ کو پٹری سے اتارنے کی کوششیں کی گئیں تھیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ ووٹوں کی گنتی روکنے مقدمات دائر کریں گے اور ایسا کیا بھی گیا۔ عدالت نے بھی بعض مقامات پر محدود رائے شماری کے مطالبہ کو قبول کیا اور پھر ڈونالڈ ٹرمپ نے آخری مایوسانہ اقدام کے طور پر تین ریاستوں میں انتخابی دھاندلیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات دائر کئے۔

ایجنڈہ کی تکمیل : ۔ امریکی صدارتی اور امریکی کانگریس کے انتخابات وہ انتخابات ہیں جس میں ساری دنیا نے دلچسپی لی ایک طرح سے ان انتخابات میں ساری دنیا نے اپنا سرمایہ مشغول کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں امریکی مالیاتی، فوجی اور ٹکنالوجی اختیارات کی اجارہ داری ہے۔ واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان (435 ارکان) کا ہر دو سال میں انتخاب عمل میں آتا ہے اور مالی امور کے تمام اختیارات ایوان نمائندگان کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ سنیٹ کے ایک تہائی ارکان (100 ارکان) کا بھی انتخاب دو سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے اور اسے مشورہ دینے اور مرضی کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ یعنی اس کی مرضی کے بغیر کوئی بل آگے نہیں بڑھتا اور نہ ہی حکومت ان کی مرضی کے بغیر کوئی اقدامات کرسکتی۔ مثال کے طور پر اہم ترین تقررات جیسے وفاقی وزراء اور سپریم کورٹ ججس کے تقررات ان کے ذمہ ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر دو سال اور ہر چار سال میں امریکی پالیسیاں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور ان کا گہرا تعلق عالمی مفادات سے ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں نومنتخب صدر جوبائیڈن کی جانب اس کی کوئی طمانیت نہیں ہے کہ نومنتخب صدر بائیڈن اپنے ایجنڈہ کی تکمیل میں کامیاب بھی ہوں گے۔ امریکہ کو درپیش چند اہم مسائل پر ہی غور کرلیں۔ کووڈ۔ 19 کی وباء نگہداشت صحت اور قابل دسترس نگہداشت سے متعلق قانون، ایمگریشن، نسلی و صنعتی مساوات، اسقاط حمل، ملک میں بڑھتے معاشی انحطاط، حلیف ملکوں سے تعلقات، سب سے بڑے حریف ملک روس سے تعلقات، تجارتی معاہدات، تحفظ پسندی بمقابلہ عالمی تجارت اور چین کی جارحانہ توسیع پسندی، جیسے مسائل پر جوبائیڈن کا خصوصی ایجنڈہ ضرور ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی رائے دہندوں میں سے تقریباً نصف نے ایسا لگتا ہیکہ ایک طرفہ ووٹ اور دوسرے نصف نے بھی یکطرفہ ووٹ دیا ہے چونکہ سنیٹ میں ری پبلکنس کا کنٹرول ہے اور سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہے ایسے میں فریقین کے درمیان ہر مسئلہ پر زبردست ٹکراؤ ہوگا۔ اب ایسا لگتا ہیکہ امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے درمیان ہر مرحلہ پر ٹکراو یقینی ہے اور بلز کی منظوری میں زبردست رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اب محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی سیاسی نظام تبدیلی کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ بات بھی خوفناک ہیکہ آیا یہ ملک آزاد خیال اور فراخدلانہ ہے یا دائیں بازو کی جانب اس کا جھکاؤ بڑھ گیا ہے۔ اس کی مثالیں ہندوستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مائنمار، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ممالک ہیں۔

وزیر اعظم کے اختیارات (پارلیمانی نظام کے تحت) اور صدر کے اختیارات (صدارتی نظام کے تحت) یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں لیکن فرق بہت دھندلا ہے کیونکہ وہاں عام سیاستداں کہنہ مشق سیاستداں بننے کے خواہاں ہیں اور تمام اختیارات کے حامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ دستور میں ترمیم کرتے جارہے ہیں جیسا کہ سری لنکا میں ہوا ہے۔ اس ملک میں زیادہ تر اختیارات دفتر وزیر اعظم کو حاصل ہیں اس طرح ہندوستان میں وزیر اعظم، امریکی صدر کی طرح اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ اسے قرض لینے خرچ کرنے عالمی معاہدات کرنے، ان معاہدات سے دستبردار ہونے ججس کے تقررات کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کرنے یا نہ کرنے کے مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ ایک حقیقی پارلیمانی نظام میں ایک وزیر اعظم کے لئے اس کی کابینہ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور وزیر اعظم کلیدی کابینی وزراء کے ساتھ عاملانہ اختیارات شیر کرتا ہے اور وزیر اعظم ازروئے قانون ہر روز پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے یا پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے اسے جواب دینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ہر مصارف کے لئے پارلیمنٹ سے منظوری لینی ضروری ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حد سے زیادہ سیاسی عزائم رکھنے والا وزیر اعظم یہی چاہتا ہے کہ وہ حقیقت میں صدر رہے۔ اگر کوئی وزیر اعظم دستور میں ترمیم کے ذریعہ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر وہ چوری چپکے ایسا کرسکتا ہے اور جمہوری نظام کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور اگر وہ یعنی وزیر اعظم اپنی پارٹی کا ایسا لیڈر ہو جسے کوئی چیالنج نہیں کرسکتا تو پھر حقیقت میں صدر کی طرح اختیارات حاصل کرنے کا عمل وہ بنا کسی احتجاج و مزاحمت کے مکمل کرلیتا ہے۔ اس امر میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر اعظم کی اکثریت اور اس کی جمہوری جبلت ہوتی ہے۔ ایک واضح اکثریت اور اس پر کمزور جبلتیں وزیر اعظم کو صدر کی طرح اختیارات کا استعمال کرنے کی جانب ڈھکیلتے ہیں۔ بدقسمتی سے آبادی کے کچھ گوشے جیسے دولتمند طبقہ اور نظریاتی طور پر متاثرہ رائے دہندے اسی قسم کے لیڈر کو کو ترجیح دیتے ہیں اور حقیقی جمہوریت کے توازن کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج کل ساری دنیا میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ سیاسی قائدین اور خاص طور پر منتخب رہنما زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنے کے خواہاں ہیں جبکہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی پسند کے افراد کا اپنے ماتحتوں کی حیثیت سے تقرر کیا جارہا ہے، کمزور قوانین منظور کئے جارہے ہیں

، فنڈس کی اجرائی سے انکار کیا جارہا ہے، ہر عمل میں اعلیٰ عہدہ داروں کی رکاوٹیں یا ان کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔ ہندوستان میں اس طرح کے اداروں کو دیکھا جائے تو ہم الیکشن کمیشن، انفارمیشن کمیشن، فینانس کمیشن اور حقوق انسانی، حقوق نسواں، حقوق اطفال، حقوق درجہ فہرست پسماندہ طبقات و قبائل، اقلیتوں کے حقوق اور حقوق صحافت کے مختلف قوانین کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں چند ہی ممالک ہیں جہاں حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے اور جمہوری حکومتیں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، سوئٹزرلینڈ، یوروپی یونین کے ارکان ممالک کے نام لیتا ہوں اور ہوسکتا ہے کہ دنیا میں اس طرح کے کچھ اور ممالک بھی ہوں جبکہ ایسے کئی ممالک بھی ہیں جنہیں ہم خودساختہ جمہوری ملک کہہ سکتے ہیں۔