ترے ضمیر پہجب تک نہ ہونزولِ کتاب

   

الفاظ نہیں کہنے کے لئے قرآن کی فضیلت کیا کہئے
ناچیز زبان فانی سے لافانی کی نسبت کیا کہئے
قرآن کو جو قاری پڑھتے ہیں اﷲ سے باتیں کرتے ہیں
اعزاز تکلم کے صدقے کیا شئے ہے یہ دولت کیا کہئے
جب حامل قرآن کے والد کو تاج منور ملتا ہے
جو حامل قرآن ہوتا ہے پھر اُس کی فضیلت کیا کہئے
اُس کو تو وہی پہچان سکے عرفان حقیقت ہے جس کو
کیا دولت عظمیٰ ملتی ہے قرآن کی بدولت کیا کہئے
استاد علوم دنیا کے جب قابل عظمت ہوتے ہیں
قرآن کا جس سے درس ملے ایسوں کی عظمت کیا کہئے
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین باتیں ضرور سکھلاؤ اپنے نبی کی محبت ، اہلبیت اطہار کی محبت اور قرآن مجید کی تلاوت ۔ اس لئے کہ قرآن مجید کے پڑھنے والے انبیاء اور اصفیاء کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے سائے میں ہوں گے اس روز جب کہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ قرآن مجید اسی طرح پڑھا جائے جیسا کہ اُتارا گیا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ہر زمان میں اپنے ایسے بندوں کو منتخب کرتا رہتا ہے جو قرآن مجید کی حفاظت کی خدمت سر انجام دیتے ہیں ۔ ارشاد الٰہی ہے ثُـمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّـذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب فرماکر ان کو کتاب کا وارث بناتا ہے ۔ لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ ایسی صلاحیت پیدا کرے کہ اس مبارک زمرہ میں اس کا شمار ہوجائے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حدیث طبرانی میں مذکور ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اپنے فرزند کو قرآن مجید کی تعلیم دی اس شخص کو قیامت میں جنت کا تاج پہنایا جائے گا ۔
دیلمی نے مسند میں روایت کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے رب سے باتیں کرے اس کو چاہئے کہ وہ قرآن پڑھے ۔
ابن ماجہ کی روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے کنبے ( اہل اﷲ ) میں شمار ہوتے ہیں ۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اﷲ ! وہ کون لوگ ہیں ۔ فرمایا کہ وہ قرآن کے کنبے والے ہیں خاصانِ خدا سے ہیں ۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ میری اُمت کے شرفاء وہ ہیں جو قرآن کے حامل ہیں اور راتوں کو جاگتے ہیں نیز ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے قرآن شریف کو دیکھ کر پڑھنے کو میری اُمت کی بہترین عبادت قرار دیا ۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا یہ دل بھی زنگ پکڑتے ہیں جیسے لوہا پانی لگ جانے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے ۔ پوچھا گیا یا رسول اﷲ ﷺ اُس کی جلا کیا ہے ؟ فرمایا : موت کو بہت یاد کرنا اور قرآن مجید کو پڑھنا ۔
بعض حضرات کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ کمسن بچوں کو مفہوم سمجھائے بغیر پڑھانا مفید ہوتا ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ علماء کے نزدیک تو قرآنی الفاظ بہرحال کلام الٰہی ہیں اور سمجھ میں آئے یا نہیں ، اس کی تلاوت ثواب سے خالی نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں قرآن مجید پڑھنے والے لڑکے زیادہ مؤدب ہوتے ہیں نیز نبی اکرم ﷺ کا مطالبہ والدین سے یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ایسی تعلیم دیں جس سے حضور اکرم ﷺ اور آپ کے اہلبیت کی محبت اُن کے دل میں راسخ ہو اور قرآن شریف پڑھنا آجائے ۔ اگر کوئی والدین یہ نہ کریں تو وہ حضور پاک ﷺ کے پاس جواب دہ رہیں گے ۔
تاہم قرآن مجید سے جو شخص نفع حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی دعوت کو سمجھے کہ وہ انسان کو سعادت ابدی کی طرف بلاتا ہے وہ انسان کے ظاہر و باطن کی ایسی تعمیر کرنا چاہتا ہے کہ وہ بارگاہِ خداوندی میں حضوری کے لائق بن سکے ۔
امام شاطبیؒ نے قرآن مجید کے اصلاً تین علوم گنوائے ہیں :
۱۔ ذات حق کی معرفت ۲۔ حق تعالیٰ کی رضا کی صورتیں ۳۔انسان کا انجام ۔
دوسرے الفاظ میں قرآن مجید کا مقصد عبدو معبود کے رشتے کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ، دنیوی زندگی کو اخروی زندگی کی بنیاد بناتا ہے ۔
بزرگوں سے منقول ہے : کلام اﷲ رب العزت کی ازلی صفات میں سے ایک صفت ہے جس سے عالم امکان سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ حق تعالیٰ نے محض اپنی عنایت سے عربی زبان کے لباس میں اسی صفت ازلی اور کمال ذاتی کا ظہور فرمایا اور اسی کو اپنے اور بندے کے درمیان واسطہ گردانا ۔ امام شاطبی نے فرمایا : جو شخص کے مطالب جاننا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہمدم بنالے اُمید ہے کہ وہ مقصود کو پالے گا ۔
حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارک قرآن مجید کے حصول کے لئے واسطہ ہے ۔ آپ کے ساتھ اتباع و پیروی کا تعلق جتنا مضبوط ہوگا اسی قدر قرآن سمجھے میں سہولت ہوگی ۔ حضور اکرم ﷺ کا سینہ قرآن مجید کا گنجینہ اور آپ کی سیرت سراپا قرآن تھی ۔ اس لئے سنت بمنزلہ تفسیر و تشریح کے ہے ۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قرآن مجید پڑھنے والا براہ راست کلام الٰہی سے تعارف و اُنس پیدا کرے اور ایسا محسوس ہو کہ وہ براہ راست مخاطب ہے ۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف