تشہیری حربوں پر کنٹرول ضروری

   

بچا سکو تو بچالو زمیں کی راحت کو
زمانہ قتل نہ کردے کہیں صداقت کو
ویسے تو انتخابات ایک طرح سے تشہیر کا ہی کھیل کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ انتخابات میں سیاسی جماعتوںاور امیدواروں کو پورا موقع ہوتا ہے کہ وہ تشہیر کرتے ہوئے عوام سے رجوع ہوں اور ان کی تائید و حمایت حاصل کی جائے ۔ سیاسی جماعتیں باضابطہ اپنے مہم چلانے والے قائدین کی ایک فہرست جاری کرتی ہیں۔ ان کے شیڈول کی اجرائی عمل میںلاتے ہوئے جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد عمل میں لاتی ہیں۔ امیدوار بھی اپنے طور پر مہم چلاتے ہوئے ووٹرس سے رجوع ہوتے ہیں اور ان سے ووٹ مانگتے ہیں۔ تاہم جس وقت سے سوشیل میڈیا کا چلن عام ہوگیا ہے اس وقت سے تشہیری حربے بھی مختلف ہوگئے ہیں۔ اب تک سیاسی جماعتوں کے قائدین اور امیدوار اپنے انتخابی منشور کے ذریعہ عوام سے وعدے کرتے ہوئے تائید مانگتے رہے ہیں تاہم اب نہ صرف گودی میڈیا پر بلکہ سوشیل میڈیا پر بھی مختلف قسم کے حربے اختیار کرتے ہوئے عوام اور ووٹرس کے ذہن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سوشیل میڈیا پر ابھی کوئی کنٹرول نہیں ہے اور اس کے ذریعہ سچ اور جھوٹ کا فرق بھی ختم کیا جا رہا ہے ۔ قوانین کے مطابق جو کام میڈیا نہیںہوسکتے ان کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ انجام دیا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر مختلف قسم کے خود ساختہ سروے پیش کرتے ہوئے بی جے پی اور مودی کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے جبکہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے مطابق الیکشن شیڈول کی اجرائی کے بعد اوپینین پول اور آخری مرحلہ کی رائے دہی تک ایگزٹ پولس پر امتناع ہے ۔ اس کے باوجود کچھ گودی میڈیا ادارے نت نئے انداز سے اوپینین پول اور پول آف پولس کو نشر کرتے ہوئے عوام میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بی جے پی اس بار بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے جا رہی ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا ۔ حقیقت حالانکہ اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔زمینی حقائق بی جے پی کے خلاف جاتے دکھائی دیتے ہیں اس کے باوجود اس طرح کی تشہیر کرتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور ان کے ذہنوں کو موڑنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔
کئی سوشیل میڈیا چینلس پر بھی اسی طرح کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ میڈیا ادارے ہوں یا اخبارات ہوں ان سب پر پھر بھی کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں اور وہ کچھ حد تک قوانین کے تابع ہوتے ہوئے کام کرتے ہیں لیکن سوشیل میڈیا پر ٹرولس کی ایک فوج کام کر رہی ہے اور اس پر کوئی کنٹرول نہیں رہ گیا ہے ۔ کئی سوشیل میڈیا چینلس کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران ہی یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ان کے سروے کے مطابق بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ ان سرویز کی بنیاد کیا ہے اور یہ کب کئے گئے ہیں۔ کہاں کئے گئے ہیں۔ کتنے عوام کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے اور کس کی ایماء پر یہ سروے کئے گئے ہیں اس کا کوئی ڈاٹا دستیاب نہیں ہے ۔ یہ صرف گھر بیٹھے دکھائے جانے والے سروے ہیں اور ان کے ذریعہ ملک کے ان رائے دہندوں پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کسی بھی جماعت کے کٹر حامی نہیں ہوتے بلکہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے لمحہ آخر میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح بی جے پی انتخابات میں کامیابی کیلئے کوئی حربہ اور کوئی ہتھکنڈہ ترک کرنے تیار نہیں ہے اور اس کیلئے وہ نہ ضابطہ اخلاق کی پرواہ کر رہی ہے اور نہ ہی اسے قوانین کی خلاف ورزی ہونے کی کوئی فکر رہ گئی ہے ۔ بی جے پی کا یہ طرز عمل اس کی کامیابی کا اشارہ نہیں بلکہ اس کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے ۔ بی جے پی اسی بوکھلاہٹ میں ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ اس کے دعوے کھوکھلے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو خاص طور پر اس صورتحال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس پر فوری حرکت میںآنا بھی ضروری ہے ۔ ہر انتخابی مرحلہ کے دوران اس طرح کے سروے جاری کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو اگر موڑا جاتا ہے تو یہ انتخابی عمل کیلئے اچھی علامت ہرگز نہیںکہا جاسکتا ۔ اس کے ذریعہ وسائل اور اقتدار رکھنے والی جماعت کو بالادستی حاصل رہتی ہے اور اپوزیشن اس طرح کے مواقع سے محروم رہتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کو ایسے اداروں اور چینلس پر روک لگانے کی ضرورت ہے جو بے بنیاد تشہیر کر رہے ہیں اور انتخابی ضابطہ اخلاق یا پھر قوانین کی پاسداری کرنے کیلئے بھی تیار نہیںہیں۔