تعلیماتِ نبوی ؐ میں ماتحتوں کےساتھ حسن سلوک

   

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
ماتحت پر سختی کرنے کی ممانعت
آ ج ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر سختی کرنے، زدوکوب کرنے، یہاں تک کہ انہیں جلا دینے تک کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کی غلطیوں کو تو نظرانداز کردیتے ہیں، لیکن کم سِن ملازم کی ذرا سی غلطی پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات میں عموماً بڑے گھرانوں کی خواتین شامل ہوتی ہیں، جن کے دلوں سے خوفِ خدا ختم ہو چکا ہے۔ ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان معصوم ملازمین پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم، تشدد، زیادتی اور سختی دائیں اور بائیں کاندھوں پر بیٹھے کراماًکاتبین لکھ رہے ہیں۔ روزِ قیامت ان سب واقعات پر مشتمل نامہ اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آخرت کی جزا و سزا اعمال سے مربوط ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔(متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تم میں سے برے لوگ نہ بتائوں؟ وہ جو اکیلے کھانا کھائے، اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی بخشش کو روکے۔
حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے ییٹے اور وہ اللہ کو یاد کرے، تو اس سے اپنے ہاتھوں کو اٹھالو۔ (ترمذی، بیہقی)
حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین صفات ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی، اللہ تعالی اس کی موت آسان کردے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ایک کمزور کے ساتھ نرمی کرنا، دوسری والدین کے ساتھ شفقت کا سلوک اور تیسری اپنے غلاموں اور کنیزوں سے حسنِ سلوک۔ (مشکوۃ شریف)
ماتحتوں سے عدل و انصاف
مزدور اور محنت کش کو اللہ پاک نے اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ملازم اور خادم بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں، لہذا یہ بھی اللہ کے دوست ہیں۔ ملازم اور خادم کے ساتھ کام اور اجرت کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے، ان سے وہی کام لیا جائے، جس کے لیے انہیں ملازم رکھا ہے، ان کی طاقت و استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ ہر شخص پر اپنے مال کی حفاظت لازم ہے۔ اکثر اوقات کسی چیز کے گم ہوجانے پر بلا ثبوت گھریلو ملازمین یا کام کرنے والی ماسیوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے، بعد میں پتا چلتا ہے کہ کہیں رکھ کر بھول گئے تھے یا کسی گھر والے کی حرکت ہے۔ اس بہتان کی اللہ کے یہاں سخت پکڑ ہے۔ ملازمین کے معاملے میں عدل و انصاف کا حکم ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھانا اور پہننا مملوک کا حق ہے اور اس کی طاقت سے باہر کام کی تکلیف نہ دی جائے۔ (صحیح مسلم)
امام مالک ؒبیان کرتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گائوں میں جایا کرتے تھے اور جب کسی غلام کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھتے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا، تو اسے کم کردیتے۔
حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں تمہارے بھائی کو اللہ تعالی تمہارا مملوک (غلام، خادم)بنادے، اسے وہی کھلائو، جو تم کھاتے ہو اور اسے وہی پہنائو، جو تم پہنتے ہو اور ایسے کام کی اسے تکلیف نہ دو، جو اس پر غالب آجائے اور اگر غالب آنے والے کام کی تکلیف دو، تو اس کی مدد کرو۔(صحیح بخاری)